زکٰوۃ کے متعلق سوالات

  • Admin
  • Dec 09, 2021

کیا سال مکمل ہونے سے پہلے بھی زکٰوۃ ادا کی جاسکتی ہے؟

اگر کوئی شخص سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰۃ کی پیشگی ادائیگی کرنا چاہے تو شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے روایت ہے کہ:

أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ.

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنے کے متعلق دريافت كيا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔

سنن ابو داؤد میں ہے کہ راوی نے ایک بار (فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ) کی بجائے (فَأَذِنَ لَهُ فِي ذَلِكَ) روایت کی ہے۔

أحمد بن حنبل، المسند، 1: 104، رقم: 822، مصر: مؤسسة قرطبة

أبي داود، السنن، كتاب الزكاة، باب في تعجيل الزكاة، 2: 115، رقم: 1624، دار الفکر

ترمذي، السنن، كتاب الزكاة، باب ما جاء في تعجيل الزكاة، 3: 63، رقم: 678، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

امام مالک رحمہ اﷲ نے پیشگی زکوٰۃ دینے سے اختلاف کیا ہے لیکن احناف نے اس حدیث مبارکہ کو جواز کی دلیل بنایا ہے:

وَلَنَا مَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْلَفَ مِنْ الْعَبَّاسِ زَكَاةَ سَنَتَيْنِ وَأَدْنَى دَرَجَاتِ فِعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَوَازُ.

ہماری دلیل یہ روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دوسال کی زکوٰۃ پیشگی لی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کا کم ازکم درجہ جواز کا ہے۔

علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع، 2: 51، بیروت: دار الکتاب العربي

اسی طرح امام شمس الدین سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَتَعْجِيلُ الزَّكَاةِ عَنْ الْمَالِ الْكَامِلِ الْمَوْجُودِ فِي مِلْكِهِ مِنْ سَائِمَةٍ أَوْ غَيْرِهَا جَائِزٌ عَنْ سَنَةٍ أَوْ سَنَتَيْنِ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.

تمام مال جو کسی کی ملکیت میں ہو خواہ مویشی ہوں یا کوئی اور مال ہو، اس میں سے پیشگی زکوٰۃ ادا کرنا جائز ہے، چاہے ایک سال کی ، دوسالوں کی یا زیادہ سالوں کی ہو۔

سرخسي، المبسوط، 2: 176، بیروت: دار المعرفة

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ آپ ایک سال کی پیشگی زکوٰۃ ادا کر سکتے ہیں۔ اگر نصف رمضان میں اور باقی اکتوبر میں ادا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

 

مال تجارت کی زکوٰۃ کا حکم

تجارت کا سامان

تجارت کا سامان ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو منافع کی نیّت سے خرید و فروخت کے لیے تیار کیا گیا ہو۔

تجارت کے سامان کو عروض اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ایک حالت پر نہیں رہتا۔ کبھی کیا ہوتا ہے اور کبھی کیا۔ کیونکہ تاجر کا مقصود خاص مال نہیں ہوتا بلکہ اسکا مقصد وہ منافع ہوتا ہے جو اسکو نقود کی شکل میں ملتا ہے۔

تجارت کا سامان پیسوں یعنی نقود کے علاوہ اموال کی تمام اقسام کو شامل ہے جیسے گاڑیاں، سلے ہوئے کپڑے، ان سلے کپڑے لوہا اور لکڑی وغیرہ یعنی ہر وہ چیز جو تجارت کی غرض سے بنائی گئی ہو۔

تجارت کے سامان میں زكات کا حکم

تجارت کے سامان کی زكات واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " اے ایمان والو تم خرچ کیا کرو ان پاک اموال میں سے جو تم کھاتے ہو "۔

جمہور علماء فرماتے ہیں کہ اس آیت سے مراد تجارت کے سامان کی زكات ہے۔ اللہ عزّوجل سورۃ توبہ میں فرماتے ہیں " اے محمدؐ ان کے اموال میں سے صدقہ لو تاکہ وہ صدقہ ان کے اموال کو پاک کر دے "

اور تجارت کا سامان ہی وہ چیز ہے جس پر اموال کی تعریف سو فیصد صادق آتی ہے۔ اس لیے اس میں زكات واجب ہے۔

تجارت کے سامان میں زكات کے وجوب کی شرائط۔

1۔ تجارت کے سامان کی قیمت نصاب تک پہنچی ہوئی ہو اور نصاب کا تعیّن سونے اور چاندی کے نصاب کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

2۔ اس پر سال گذر چکا ہو۔

3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ تجارت کی غرض سے تیار کیا گیا ہو اور وہ یہ کہ اس میں منافع اور کمائی کا مقصد اور ارادہ کیا گیا ہو کیونکہ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں " تمام اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے "۔[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

اگرکسی آدمی نےپہلے تجارت کی نیّت کی پھر وہ نیّت تبدیل کر کے اس سامان کو ذاتی استعمال میں لانے کی نیّت کر لی تو سال ٹوٹ جائیگا اور اسکا اعتبار نہیں کیا جائیگا۔

اور اگر اس نے دوبارہ تجارت کی نیّت کر لی تو سال کے دنوں کا شمار نئے سرے سے کیا جائیگا یعنی اس کی نیّت کے وقت سے سال شروع ہو گا۔

لیکن اگر اس نے زكات سے بچنے کے لیے تجارت کی نیّت ترک کی تو پھر اسکا یہ حیلہ نہیں چلے گا اور سال برقرار رہے گا اور اس پر زكات واجب ہو جائے گی۔

مثال کے طور پر اگر کسی نے محرم کے مہینے میں تجارت کی نیّت سے زمین خریدی اور شعبان کے مہینے میں اس نے اپنی نیّت تبدیل کر دی اور اس زمین پر رہنے کے لیے مکان بنانے کا ارادہ کر لیا تو سال منقطع ہو جائیگا۔

پھر اگر اس نے اس زمین کے بارے میں شوال میں دوبارہ تجارت کی نیّت کر لی تو سال کا شمار نئے سرے سے یعنی اس کی نیّت کے دن سے کیا جائیگا۔ لیکن اگر اس نے یہ سارا کام زكات سے چھٹکارے کے لیے کیا تو پھر اس کا یہ حیلہ نہیں چلے گا۔ بلکہ اس پر زكات واجب ہو گی۔

تجارت کے سامان سے زكات نکالنے کا طریقہ

جب سال گذر جائے تو جو سامان بیچنے کے لیے خریدا تھا اسکی بازار میں اس وقت کی قیمت کے مطابق قیمت لگائی جائے گی۔ تو پھر فقیر اور غریب کی ضرورت کے مطابق اس میں سے یا اسکی قیمت میں سے زكات نکالی جائیگی۔

تاجر تجارت کے سامان کی زكات کیسے شمار کرے گا؟

1۔ جو کچھ اسکے پاس ہے اسکی موجودہ قیمت کے اعتبار سے قیمت لگائے گا۔

2۔ جو نقدی اس کے پاس ہے چاہے اسکو تجارت میں استعمال کیا ہو یا نہ کیا ہو اسکو اسکے ساتھ ملا دے گا۔

3۔ جو اس نے لوگوں سے قرض لینا ہے اسکو بھی ساتھ جمع کر دے۔

4۔ جو اس نے قرض دینا ہے اسکو اس سارے مجموعے میں سے نفی کر دے۔

5۔ جو باقی رہ جائےگا اس میں سے 100 روپے پر2.5 روپے کے حساب سے زكات نکالے گا۔ یعنی تاجر تجارت کے سامان کی قیمت کو اور جو اس نے قرض لینا ہے لوگوں سے، کے ساتھ جمع کرے گا اور 100 میں سے 2.5 کے حساب سے زكات نکالے گا۔

تجارت کی زكات کے حساب کے لیے زكات واجب ہونیوالے دن موجودات یعنی موجودہ چیزوں کو دیکھا جائے گا اور ان کی قیمت لگائی جائے گی اور نفع اور نقصان کو بالکل نہیں دیکھا جائے گا۔

ڈھانپنے اور اٹھانے کے لیے استعمال ہونے والی چیزوں کو اگر بیچنے کی غرض سے نہ خریدا گیا ہو تو اسکی قیمت نہیں لگائی جائے گی اور اگر انکی قیمت لگانے سے تجارت کے سامان کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہو تو پھر انکی قیمت لگائی جائے گی۔

مثال کے طور پر وہ خاص قسم کے بیگ جن کی علیحدہ قیمت لگائی ہوتی ہے اور اگر قیمت میں بڑھوتی نہ آئی ہو تو پھر قیمت نہیں لگائی جائے گی۔ مثال کے طور پر کسی چیز کو ڈھانپنے کے لیے استعمال ہونیوالے کاغذ وغیرہ۔

اور سامان کی قیمت ایسی لگائی جائیگی جو ہر تاجر کے لیے قبول ہو چاہے وہ سارا سامان خریدے یا آدھا خریدے اور اس قیمت سے سال کے آخر میں وہ سامان خریدا جا سکتا ہو یعنی مناسب قیمت لگائی جائے گی۔ بیچنے والی اور بازاری قیمت نہیں لگائی جائیگی۔

اور اگر قیمتیں تبدیل ہو جائیں یعنی زكات واجب ہونے والے دن قیمت کم ہو اور زكات کی ادائیگی والے دن قیمت بڑھ جائے تو زكات واجب ہونیوالے دن کی قیمت کا اعتبار کیا جائیگا۔ 

ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونیوالے سامان کی زكات قبض سے پہلے مالک پر واجب ہوتی ہے۔ اور خریدے ہوئے سامان پر قبضہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ شرط اور وصف پائی جائے جو سامان کی خریدوفروخت کے وقت لگائی گئی تھی۔

مثال کے طور پر اگر خرید و فروخت کے وقت یہ شرط لگائی گئی کہ بیچنے والا اپنی بندرگاہ پر سامان اسکے حوالہ کرے گا تو اس صورت میں سامان کو کشتی یا بحری جہاز کے حوالہ کرتے ہی خریدنے والا اسلکا مالک بن جائے گا اور اگر خرید و فروخت اس بنیاد پر کی گئی کہ بیچنے والا خریدنے والے کی بندرگاہ پر سامان اسکے حوالہ کرے گا تو پھر خریدنے والا اس سامان کا اس وقت مالک بنے گا جب یہ سامان اسکی بندرگاہ پر پہنچ جائے۔

اگر تجارت کا سامان مختلف قسم کی کرنسیوں پر مشتمل ہو یا سونا اور چاندی ہو تو اسکی قیمت اس کرنسی سے لگائی جائے گی۔ جس کے ذریعے سےتاجر نے تجارت کے سامان کی قیمت لگائی تھی اور کرنسی کی اس دن کی قیمت کا اعتبار کیاجائے گا جس دن زكات واجب ہوئی تھی۔

تجارت کا وہ سامان جسکی قیمت مشتری(خریدار) ادا کر چکا ہو لیکن وہ سامان ابھی تک بائع (بیچنے والا)کے قبضہ میں ہو تو ان ادا شدہ پیسوں کی زكات مشتری پر نہیں بلکہ بائع پر واجب ہو گی۔

وہ خام مواد جو کسی چیز کے بنانے میں شامل ہو اور وہ مواد جس کے ذریعے کسی چیز کے بنانے میں مدد ملتی ہو۔

1۔ وہ خام مواد جو کسی چیز کے بنانے کے لیے اسکے بنائے گئے مادہ میں شامل ہو۔ جیسے لوہا،گاڑیوں کے بنانے میں اور تیل صابن کے بنانے میں شامل ہوتا ہے ان میں زكات واجب ہے، اس قیمت کے اعتبار سے جس کے ذریعے اسکو سال کے آخر میں خریدا جا سکتا ہو اور اسی اصول کے مطابق ان حیوانات، دانوں اور نباتات کی بھی زكات دے جائے گی جو کسی چیز کے بنانے میں شامل ہوں۔

2۔ وہ مواد جو کسی چیز کے بنانے میں تو شامل نہ ہوں لیکن بنانے کے لیے کار آمد اور معاون ضرور ہوں جیسے لکڑیاں مختلف چیزوں کے بنانے کے لیے تو ان میں زكات واجب نہیں ہے۔

3۔ اس سامان کی زكات جو ابھی تک نہ بنایا گیا ہو اور وہ سامان جس کی بناوٹ ابھی تک نہ ہوئی ہو۔

4۔ دونوں پر زكات واجب ہے اور سال گذرتے ہی وہ جس حالت میں ہو گا اس کی قیمت لگائی جائے گی اور اس کے مطابق زكات دے دی جائے گی۔

تجارت کے سامان کے ساتھ زكات کے وجوب کے کسی اور سبب کو ملانا۔

اگر تجارت کے سامان کے ساتھ زكات کے وجوب کی کوئی اور چیز ملا دی گئی جیسے کھیتی تو سب کو تجارت کا سامان سمجھا جائے گا اور اس کے مطابق زكات دی جائے گی۔ [قضایا فقھہیہ معاصرہ د/صلاح الصاوی ص 54 اور اسکے بعد]

مال کی وہ قسمیں جس میں زكات واجب نہیں ہے۔

دریا سے نکلی چیزوں پر زكات نہیں ہے جیسے موتی، مرجان یعنی چھوٹے موتی اور مچھلی وغیرہ۔ ہاں اس وقت ان پر زكات واجب ہے جب یہ تجارت کا سامان بن جائیں۔

وہ سامان جن کو کرایہ پر دینے کے لیے تیار کیا گیا ہو یا بنایا گیا ہو جیسے زمینیں اور گاڑیاں تو ان پر زكات واجب نہیں ہے۔ ہاں ان کے ذریعےحاصل کیے گئے کرایہ کی رقم پر زكات ہے۔ جب وہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے۔

جن چیزوں کو انسان اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرتا ہے جیسے گاڑی اور گھر ان پر زكات واجب نہیں ہے۔

رأس المال پر زكات

تجارت کے اموال میں سے رأس المال کی زكات نکالی جاتی ہے۔ وہ مال جس کےذریعے منافع کے حصول کے لیے تجارت یا خریدوفروخت کی جاتی ہےالبتہ وہ اموال یا وہ چیزیں جن میں سامان کو محفوظ کیا جاتا ہے۔

جیسے الماریاں، فریج اور گاڑیاں جن میں سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے اور وہ آلات جن کے ذریعے سامان کو اٹھایا جاتا ہے وغیرہ میں زكات نہیں ہے۔

(واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ)

 

زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط کیا ہیں؟

زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں :

1۔ مسلمان ہونا : زکوٰۃ مسلمان پر فرض ہے، کافر اور مرتد پر نہیں۔

2۔ بالغ ہونا : زکوٰۃ بالغ مسلمان پر فرض ہے، نابالغ زکوٰۃ کی فرضیت کے حکم سے مستثنیٰ ہے۔

3۔ عاقل ہونا : زکوٰۃ عاقل مسلمان پر فرض ہے، دیوانے پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

4۔ آزاد ہونا : زکوٰۃ آزاد و خود مختار پر فرض ہے، غلام پر نہیں۔

5۔ مالک نصاب ہونا : شریعت کے مقرر کردہ نصاب سے کم مال کے مالک پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

6۔ مال کا صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہونا : مال صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہو تو تب ہی اس پر زکوٰۃ فرض ہے مثلاً کسی نے اپنا مال زمین میں دفن کر دیا اور جگہ بھول گیا اور پھر برسوں بعد وہ جگہ یاد آئی اور مال مل گیا، تو جب تک مال نہ ملا تھا اس زمانہ کی زکوٰۃ واجب نہیں کیونکہ وہ اس عرصہ میں نصاب کا مالک تو تھا مگر قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے پورے طور پر مالک نہ تھا۔

7۔ صاحبِ نصاب کا قرض سے فارغ ہونا : مثلاً کسی کے پاس مقررہ نصاب کے برابر مال تو ہے مگر وہ اتنے مال کا مقروض بھی ہے تو اس کا مال قرض سے فارغ نہیں ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔

8۔ نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہونا : حاجتِ اصلیہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو زندگی بسر کرنے میں بعض بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے بلحاظ موسم کپڑے اور دیگر گھریلو اشیائے ضرورت جیسے برتن، وغیرہ۔ اگرچہ یہ سب سامان زکوٰۃ کے مقررہ نصاب سے زائد مالیت کا ہی ہو مگر اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی کیونکہ یہ سب مال و سامان حاجتِ اصلیہ میں آتا ہے۔

9۔ مالِ نامی ہونا : یعنی مال بڑھنے والا ہو خواہ حقیقتاً بڑھنے والا مال ہو جیسے مال تجارت اور چرائی پر چھوڑے ہوئے جانور یا حکماً بڑھنے والا مال ہو جیسے سونا چاندی۔ یہ ایسا مال ہے جس کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے بدلے دیگر اشیاء خریدی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا سونا چاندی جس حال میں بھی ہو خواہ زیورات اور برتنوں کی شکل میں ہو یا زمین میں دفن ہو ہر حال میں یہ مالِ نامی یعنی بڑھنے والا مال ہے اور ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔

10۔ مالِ نصاب کی مدت : نصاب کا مال پورا ہوتے ہی زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی بلکہ ایک سال تک وہ نصاب مِلک میں باقی رہے تو سال پورا ہونے کے بعد اس پرزکوٰۃ نکالی جائے گی۔

1. شرنبلالی، نورالايضاح، 146

2. سرخسی، المبسوط، 2 : 172

 

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

 

زوجہ کی زکوۃ شوہر دے، تو کیا حکم ہے؟

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اپنی اہلیہ کی اجازت سے ان کی طرف سے زکوٰۃ نکالنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے ۔

بنایہ میں ہے : ”ولو أدی زکاۃ غیرہ من مال نفسہ بغیر أمرہ فأجازہ لا یجوز وبأمرہ یجوز“ ترجمہ: اگر کسی دوسرے کے حکم کے بغیر اس کی زکوۃ اپنے مال سے ادا کر دی اور بعد میں اس دوسرے نے اس کو جائز قرار دے دیا ، تو یہ جائز نہیں (یعنی زکوۃ ادا نہیں ہوگی) اور دوسرے کی اجازت سے زکوٰۃ دی ، تو جائز ہے ( یعنی پھر زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ) ۔

(البنایہ، کتاب الزکوۃ، جلد3، صفحہ314، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

کیا مقروض‌ پر زکوٰۃ‌ ہے؟

اگر مقروض کے پاس اس قدر مال ہے کہ قرض کی رقم کو منہا (Deduct) کرنے کے بعد اُس کے پاس بقدر نصابِ شرعی یا اس سے زائد بچ جاتا ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اگر قرض کی رقم کو منہا کرنے کے بعد بقیہ مال نصابِ شرعی کو نہیں پہنچتا تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی۔ امام علاؤالدین الکاسانی فرماتے ہیں:

إذَا كَانَ عَلَى الرَّجُلِ دَيْنٌ وَلَهُ مَالُ الزَّكَاةِ وَغَيْرُهُ مِنْ عَبِيدِ الْخِدْمَةِ، وَثِيَابِ الْبِذْلَةِ، وَدُورِ السُّكْنَى، فَإِنَّ الدَّيْنَ يُصْرَفُ إلَى مَالِ الزَّكَاةِ عِنْدَنَا سَوَاءٌ كَانَ مِنْ جِنْسِ الدَّيْنِ أَوْ لَا وَلَا يُصْرَفُ إلَى غَيْرِ مَالِ الزَّكَاةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ جِنْسِ الدَّيْنِ.

جب کسی شخص پر قرض ہو اور اس کے پاس مال زکوٰۃ اور اس کے علاوہ خدمت کے نوکر، استعمال کے کپڑے، رہائشی مکانات وغیرہ بھی ہوں تو ہمارے نزدیک قرض مال زکوٰۃ میں سے ادا کیا جائے گا، خواہ وہ مال جنس قرض سے ہو یا نہ ہو۔ اور اس کے علاوہ دوسری اشیاء سے ادا نہیں کیا جائے گا ، خواہ وہ جنس قرض سے ہوں۔

علاء الدين الكاسانى، بدائع الصنائع، 2: 8، بيروت، لبنان: دار الكتاب العربى

 

اس لیے کل مال میں سے قرض کے برابر رقم نکال کر باقی کو دکھا جائے گا، اگر وہ نصابِ شرعی کے برابر ہو تو اس پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔

یہ یاد رہے کہ سودی قرض لینا حرام ہے اور وہ رقم جو سود کی مد میں دی جائے گی (نعوذ باللہ ) وہ قرض میں شامل نہیں اور وہ رقم نصاب سے منہا بھی نہیں ہوگی ۔

اس  قرض کی رقم کو زکوٰۃ کے نصاب سے منہا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قرض میعادی نہیں ہوتا ،   مقروض سے ہمہ وقت  اس کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے یعنی قرض خواہ جب چاہے  مقروض سے اپنا قرض طلب کرسکتا ہے اور مقروض اسے دینے سے انکار نہیں کرسکتا ، اگرچہ پہلے اس کی میعاد مقرر کردی ہو اور یہاں اصول  یہی ہے کہ وہ دَین جس کا کوئی مطالِب  بندوں کی طرف سے ہو  چاہے مطالبہ فی الفور ہو یا تاخیر سے وہ مانع زکوٰۃ ہوتا ہے اور اتنا مال اس کے حوائج اصلیہ میں مشغول شمار ہوکر کالعدم قرار پاتا ہے۔ 

در مختار میں ہے :’’القرض فلا يلزم تأجيله‘‘یعنی قرض کی مدت لازم قرار نہیں پاتی۔

خاتم المحققین علامہ سید ابن عابدین شامی رحمہ اللہ تعالی اس کے تحت فرماتے ہیں :’’أي أنه يصح تأجيله مع كونه غير لازم  فللمقرض الرجوع عنه‘‘یعنی  قرض کی مدت مقرر کرنا اگرچہ صحیح ہے ،لیکن یہ مدت لازم نہیں ہوتی مُقرِض اس سے رجوع کرسکتا ہے۔

(الدر المختار مع رد المحتار، جلد 7، صفحہ 402، مطبوعہ کوئٹہ)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :’’اور یاد رکھنا چاہیے کہ قرض جسے لوگ دست گرداں کہتے ہیں شرعا ہمیشہ معجل ہوتا ہے، اگر ہزار عہد وپیمان ووثیقہ وتمسک کے ذریعہ اس میں میعاد قرار پائی ہو کہ اتنی مدت کے بعد دیا جائے گا ،اس سے پہلے اختیارِ مطالبہ نہ ہوگا، اگر مطالبہ کرے تو باطل ونامسموع ہو وغیرہ وغیرہ ہزار شرطیں اس قسم کی کرلی ہوں ،تو وہ سب باطل ہیں ، اور قرض دہندہ کو ہر وقت اختیارِ مطالبہ ہے۔‘‘

منہیۂ  فتاوی رضویہ،جلد 10،صفحہ 247،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور) 

امام ملک العلماء ابو بکر کاسانی رحمہ اللہ تعالی فرماتےہیں:’’ومنها أن لا يكون عليه دين مطالب به من جهة العباد عندنا فإن كان فإنه يمنع وجوب الزكاة بقدره حالا كان أو مؤجلا‘‘ہمارے نزدیک زکوٰۃ کے واجب ہونے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ اس پر ایسا دین نہ ہو جس کا مطالبہ بندوں کی طرف سے ہو، اگر ایسا دین ہو چاہے دین فی الحال دینا ہو یا بدیر وہ زکوٰۃ کے وجوب سے مانع ہوگا۔

(البدائع الصنائع ،جلد 2 ،صفحہ 6، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

امام برھان الدین محمود مازہ رحمہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :’’كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة،سواء كان الدين للعباد،أولله تعالى كدين الزكاة ‘‘ہر وہ دین جس کا بندوں کی طرف سے کوئی مطالبہ کرنے والا ہو زکوٰۃ کے وجوب سے مانع ہوتا ہے، چاہے دین بندوں کا ہو یا اللہ تعالی کا جیسے (گزشتہ سالوں کی) زکوٰۃ کا دین ۔

مزید فرماتے ہیں :’’إنمامنع وجوب الزكاة،لأن ملك المديون في القدرالمشغول بالدين ناقص‘‘یہ دین زکوٰۃ کے وجوب سے مانع اس لیے ہوتا ہے کہ مدیون کی ملک  دین میں مشغول مال میں ناقص ہوتی ہے۔

(المحیط البرھانی ،جلد 2، صفحہ 510، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)

دین کے مال زکوٰۃ سے منہا ہونے کے حوالے سے فتاوی رضویہ میں ہے :’’دین ِعبد( یعنی بندوں میں جس کا کوئی مطالبہ کرنے والا ہو اگرچہ دین حقیقتاً اللہ عزوجل کا ہو جیسے دینِ زکوٰۃ  جس کا حق ِ مطالبہ بادشاہِ اسلام اعز اللہ نصرہ کو ہے) ، انسان  کے حوائج اصلیہ سے ایسا دین جس قدر ہوگا اتنا مال مشغول بحاجت اصلیہ قرار دے کر کالعدم ٹھہرے گا اور باقی پر زکوٰۃ واجب ہوگی اگر بقدرِ نصاب ہو۔‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 126، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا امجد علی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :’’نصاب کا مالک مگر اس پر دین ہے کہ ادا کرنے کے بعد نصاب نہیں رہتی تو زکوٰۃ واجب نہیں ، خواہ وہ دین بندے کا ہو جیسے قرض ، زر ثمن، کسی چیز کا تاوان، یا اللہ عزوجل کا دین ہو ، جیسے زکوٰۃ ، خراج۔‘‘

(بہار شریعت، حصہ 7، صفحہ 878، مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ  اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ  اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم