حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ

  • Admin
  • Apr 01, 2021

 تعارف :

آپؒ کا اصل نام محمدؒ ابن محمدؒ ابن حسینؒ حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔ اور آپ جلال الدینؒ، خداوندگار اور مولانا خداوندگار کے القاب سے نوازے گئے۔ لیکن  مولانا رومیؒ کے نام سے مشہور ہوئے۔

 پیدائش :

آپؒ کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومیؒ 604 ہجری بمطابق 6 ربیع الاول  میں پیدا ہوئے۔

سلسلہ نسب :

جواہر مضئیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا گیا ہے :

محمدؒ بن محمدؒ بن محمدؒ بن حسینؒ بن احمدؒ بن قاسمؒ بن مسیبؒ بن عبد اللہؒ بن عبد الرحمنؒ بن ابی بکرصدیقؒ۔

اس روایت سے حسین بلخیؒ مولانا کے پردادا ہوتے ہیں لیکن سپہ سالار نے انہیں دادا لکھا ہے اور یہی روایت صحیح ہے۔ کیونکہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدینؒ بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔

آباؤ اجداد :

 آپ کے والد حضرت شیخ بہاءالدین رحمۃاللہ علیہ :

آپؒ کے والد ماجد کا لقب شیخ بہاؤالدین رحمۃاللہ علیہ ہے۔آپؒ کا وطن بلخ تھا۔آپؒ علم وفضل میں یکتائے روزگار گنے جاتے تھے۔دوردراز مقامات سے انھی کے یہاں فتوے آتے تھے۔ بیت المال سے کچھ روزینہ مقرر تھا۔ اُسی پر گزر اوقات تھی۔ وقف کی آمدنی سے مطلقاً متمع نہیں ہوتے تھے۔ معمول تھا کہ صبح سے دوپہرتک علوم درسیہ کا درس دیتے۔ اور ظہر کے بعد حقائق اور اسرار بیان کرتے۔ پیر اور جمعہ کا دن وعظ کےلیے مقرر تھا۔

یہ خوارزم شاہیون کا دور تھا اور (محمد خوارزم شاہ)جواس سلسلہ کامسند آراٗ تھا۔ وہ بہاءالدین رحمۃاللہ علیہ کے حلقہ بدوشوں میں تھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ اُسی زمانہ میں امام فخرالدین رازی رحمۃاللہ علیہ بھی تھے اور خوارزم شاہ کو ان سے بھی خاص عقیدت تھی اکثر ایسا ہوتا کہ جب محمد خوارزم شاہ حضرت بہاؤالدینؒ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو امام صاحب بھی ہمرکاب ہوتے۔

ایک دن خوارزم شاہ مولانا بہاؤالدین رحمۃاللہ علیہ کے پاس گیا تو ہزاروں لاکھوں آدمیوں کا مجمع تھا۔ شخصی سلطنتوں میں جو لوگ مرجع عام ہوتے ہیں سلاطین وقت کو ہمیشہ ان کی طرف سے بے اطمینانی رہتی ہے۔ مامون الرشید نے اسی بناء پر  حضرت علی رضاؒ کو عید گاہ میں جانے سے روک دیا تھا۔ جہانگیر بادشاہ نے اسی بناء پر حضرت مجدد الف ثانیؒ کو قید کر دیا تھا۔ بہرحال خوارزم شاہ نے حد سے زیادہ بھیڑ دیکھ کر امام رازی رحمۃاللہ  علیہ سے کہا کہ یہ کس غضب کا مجمع ہے؟ امام صاحب اس قسم کے موقع کے منتظر رہتے تھے آپ نے فرمایا ہاں اور اگر ابھی سے تدارک نہ ہوا ہو تو پھر سے شکل پڑے گی۔

خوارزم بادشاہ نے امام فخرالدین رازی رحمۃاللہ علیہ کے اشارے پر شاہی خزانہ اور قلعہ کی کنجیاں حضرت بہاؤالدین کےپاس بھیج دیں اور کہلا بھیجا کہ اسباب سلطنت سے صرف یہ کنجیاں میرے پاس رہ گئی ہیں اور وہ بھی حاضر ہیں۔ مولانا بہاؤالدین رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ اچھا میں جمعہ کو وعظ کہہ کر یہاں سے چلا جاؤں گا۔ آپ جمعہ کے دن وہاں سے نکلے۔ مریدینِ خاص میں سے تین سو بزرگ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ خوارزم بادشاہ کو جب خبر ہوئی تو وہ بہت پچھتایا اور حاضر ہو کر بڑی منت سماجت کی لیکن یہ اپنے ارادے سے باز نہ رہے۔ راہ میں جہاں جہاں سے گزر ہوتا وہاں امراء و رؤسا زیارت کےلیے تشریف لاتے۔ آپ 610 ہجری میں نیشا پور پہنچے۔ آپ کو حضرت خواجہ فریدالدین عطار رحمۃاللہ علیہ بھی ملنے آئے۔ اس وقت حضرت مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کی عمر چھ برس تھی۔ لیکن سعادت کا ستارہ آپ کی پیشانی سے چمک رہا تھا۔ حضرت خواجہ فریدالدین عطار رحمۃاللہ علیہ نے شیخ بہاؤالدین رحمۃاللہ علیہ سے کہا کہ اس جوہر قابل سے غافل نہ ہونا۔ یہ کہہ کر اپنی مثنوی اسرارنامہ مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کو عطا کی اور چلے گئے۔

حضرت شیخ بہاء الدین رحمۃللہ علیہ نے جمعہ کے دن 18 ربیع الثانی 628 ہجری میں وفات پائی۔

تعلیم و تدریس :

مولانا روم رحمۃاللہ علیہ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم حضرت شیخ بہاؤالدین رحمۃاللہ علیہ سے حاصل کی۔ حضرت شیخ بہاؤالدین رحمۃاللہ علیہ کے مریدوں میں سے سید برہان الدینؒ بڑے محقق اور بڑے پایہ کے فاضل تھے۔ مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کے والد نے آپ کو اُن کی آغوشِ تربیت میں دیا۔ حضرت سید برہان الدین رحمۃاللہ علیہ آپ کے اتالیق بھی تھے اور استاذ بھی تھے۔ آپ نے اکثر علوم وفنون انھی سے حاصل کیے۔ 18 یا 19 برس کی عمر میں آپ اپنے والد کے ساتھ قونیہ میں آئے۔ جب آپ کے والد حضرت شیخ بہاؤالدین رحمۃاللہ علیہ نے انتقال کیا تو اس کے دوسرے سال یعنی 629عیسوی میں جب آپکی عمر 25 برس تھی اُس وقت آپ نے تکمیلِ فن کےلیے شام جانے کا قصد کیا۔ اُس زمانہ میں دمشق اور حلب علوم و فنون کے مرکز تھے۔

مولانا روم رحمۃاللہ علیہ نے سب سے پہلے حلب جانے کا قصد کیا اورمدرسہ حلاویہ کی دارالاقامہ (بورڈنگ) میں قیام کیا۔ اُس مدرسہ کے مدرس کمال الدین ابن عدیم حلبی تھے۔مولانا روم رحمۃاللہ علیہ نے مدرسہ حلاویہ کے علاوہ اور مدرسوں میں بھی تعلیم حاصل کی۔ طالب علمی ہی کے زمانہ میں عربی،فقہ،حدیث،تفسیر اور معقول میں یہ کمال حاصل کیا کہ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا اور کسی سے حل نہ ہوتا تو لوگ اُن کی طرف رجوع کرتے۔

مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کے والد نے جب وفات پائی تو سید برہان الدینؒ اپنے وطن "ترمذین” میں تھے یہ خبر سن کر "ترمذین” سے روانہ ہوئے اور "قونیہ” میں آئے۔ مولانا روم رحمۃاللہ علیہ اُس وقت "لارمذین” میں تھے۔ سید برہان الدینؒ نے مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کو خط لکھا اور اپنے آنے کی اطلاع دی۔ مولانا روم رحمۃاللہ علیہ اُسی وقت وہاں سے روانہ ہوئے۔ قونیہ میں استاذ شاگرد کی ملاقات ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور کافی دیر تک دونوں پر بے خودی کی کیفیت رہی۔ افقہ کے بعد سید برہان الدینؒ نے مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کا امتحان لیا اور جب آپ کو تمام علوم میں کامل پایا تو کہا کہ صرف باطنی علم رِہ گیا ہے اور یہ تمہارے والد کی امانت ہے جومیں تم کو ابھی دیتا ہوں۔ چنانچہ 9 برس تک طریقت اور سلوک کی تعلیم دی۔ بعضون کا بیان ہے کہ اُسی زمانہ میں مولانا روم رحمۃاللہ علیہ اپنے استاذ سید برہان الدین رحمۃآللہ علیپہ کے مرید بھی ہو گئے۔مولانا روم رحمۃاللہ علیہ نے اپنی مثنوی شریف میں جابجا سید برہان الدین کا نام اُسی طرح لیا ہے جس طرح ایک مخلص مرید، پیر کانام لیتا ہے۔

آپؒ کے پاس سارے علوم تھے مگر مولانا روم رحمۃاللہ علیہ پر ابھی تک ظاہری علوم کا رنگ ہی غالب تھا۔ آپؒ علوم دینیہ کا درس دیتے،وعظ کہتے، فتویٰ لکھتے اور سماع وغیرہ سے سخت احتراز کرتے تھے۔ مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کی زندگی کا دوسرا دور درحقیقت "مولانا شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ” کی ملاقات سے شروع ہوا۔

مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کی حضرت شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ سے ملاقات:

جواہرِ مضیئہ جو علماءِ حنفیہ کے حالات میں سے سب سے پہلی اور سب سے زیادہ مستند کتاب ہے اُس میں لکھا ہے کہ ایک دن مولانا روم رحمۃاللہ علیہ اپنے گھر میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے شاگرد آس پاس بیٹھے تھے اور چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اتفاقاً حضرت شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ کسی طرف سے آ نکلے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔آپ نے مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کی طرف مخاطب ہوکر پوچھا یہ (کتابوں کی طرف اشارہ کر کے کہا)  کیا ہے؟ مولانا روم رحمۃآللہ علیہ نے اُن سے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جس کو تم نہیں جانتے۔ آپ کا یہ کہنا  تھا کہ دفعتاً تمام کتابوں میں آگ لگ گئی۔ مولانا روم رحمۃاللہ علیہ نے اُن سے پوچھاکہ یہ کیا ہے؟ حضرت شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ وہ چیز ہے جس کو تم نہیں جانتے۔ حضرت شمس تبریز تو یہ کہہ کر چل دیے لیکن مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کا یہ حال ہوا کہ اپنا گھر بار، مال اولاد، سب کچھ چھوڑ کر اُن کی تلاش میں نکل پڑے اور ملک بملک خاک چھانتے پھرے مگر حضرت شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ کا کہیں پتہ نہ لگا۔

زین العابدین شروانی نے مثنوی کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ حضرت شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ کو اُن کے پیر بابا کمال الدین جندی نے اُن کو حکم دیا کہ تم روم چلے جاؤ وہاں ایک دِل سوختہ ہے اُس کو گرم کر آؤ۔ حضرت شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ پھرتے پھراتے قونیہ پہنچے۔ شکر فروشوں کی کاروانِ سرا میں اُترے۔ ایک دن مولانا روم رحمۃاللہ علیہ کی سواری بڑے تزک و احتشام سے نکلی۔ حضرت شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ نے آپ کو سرِ راہ ٹوک کر پوچھا کہ "مجاہدہ اور ریاضت کا کیا مطلب ہے” مولانا روم رحمۃاللہ علیہ نے کہا کہ "اتباعِ شریعت”۔ حضرت شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ نے کہا کہ یہ تو سب جانتے ہیں۔ مولانا روم رحمۃاللہ علیہ نے کہا کہ اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا؟ حضرت شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ نے کہا کہ علم کے یہ معنیٰ ہیں کہ ” تم کو منزل تک پہنچا دے” پھر حضرت شمس ربریز رحمۃاللہ علیہ نے حکیم سنائی کا یہ شعر پڑھا:

علم کز توترا نہ بستاند                     جہل ازان علم بہ بود بسیار

مولانا روم رحمۃاللہ علیہ پر اِن جملوں کا یہ اثر ہو اکہ اُسی وقت آپ نے حضرت شمس تبریز رحمۃاللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔

تصانیف :

1- بوستان معرفت

2- پیراہن یوسفی

3- زریں حکایات

4- مثنوی عقد گوہر

5- مثنوی مولانائے روم

6- کشف العلوم

7- مثنوی مولوی معنوی

8- یہ خانۂ آب وگل

دینی خدمات :

اسلام کی بدولت دنیا کو کئی ایسی ہستیاں نصیب ہوئیں جن کے قراٰن و سنّت سے معمور زندہ جاوید اَفْکار، متأثرکُن کردار اور دل کی کیفیت بدل دینے والی تصانیف و تالیفات اور اَشعار نے ہر دور میں انسانیت کی راہنمائی کی، ان میں سے ایک ہستی حضرت سیّدنا مولانا جلالُ الدّین محمد رُومی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی بھی ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تدریس اور فتاویٰ کے ذریعے اُمّت کی راہنمائی فرمائی نیز کئی کُتُب بھی تصنیف فرمائیں جن میں ”مَثْنَوی شریف“ کو عالَم گیر شہرت حاصل ہے اس عظیمُ الشّان کتاب سے اِسْتِفادَہ انسان کو بااَخلاق بننے، نیکیاں کرنے اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچنے میں بے حد معاوِن و مددگار ہے۔

کرامات :

1- حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ سے جب حضرت شاہ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت شاہ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ مولانا آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کلمہ شریف آتا ہے ؟ حضرت شاہ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کے اس سوال پر حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ بہت حیران ہوئے اور فرمانے لگے کہ حضرت اگر مجھے کلمہ نہیں آتا تو پھر کسے آئے گا پھر حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ستر قسم کی قرت سے کلمہ سنایا جسے سن کر حضرت شاہ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ غلط ہے آپ دو برتن منگوا ئیں میں کلمہ پڑھ کر سُناتا ہوں
حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے دو پلیٹیں منگوا ئیں حضرت شاہ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ نے پلیٹوں کو او پر نیچے جوڑ کر لاالہ کا سانس کھینچا تو او پر والی پلیٹ چھت سے جالگی اور جب الا اللہ کے سانس کی ضرب دل پر لگائی تو دونوں پلیٹیں آپس میں مل گئیں جس پر حضرت شاہ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا صحیح کلمہ وہ ہے جو بندے کو مولا سے اس طرح ملا دے جس طرح یہ پلیٹیں آپس میں مل گئیں ہیں۔

2- دنیا کے بڑے بڑے علماء آپ سے فتویٰ لینے آتے تھے اور جب انہوں نے حضرت سلطان شمس تبریز کی صحبت اختیار کی تو قال کی دنیا سے نکل کر حال کی دنیا میں قدم رکھا تو حلقہ تدریس ختم کردیا۔ فتویٰ نویسی بند کردی اور حال کی دنیا میں ایسے داخل ہوئے کہ سلطان العارفین بنے آپ نے دنیا کو صاحب حال کرنے کے لیے مثنوی لکھی۔ اس مثنوی میں اس حال کا ذکر کرتے ہیں۔

اے طالب! بانسری سے سن کیا کہانی بیان کرتی ہے۔ یہاں بانسری سے مراد روح انسانی ہے۔ جب روح کو انسانی بدن میں ڈالا گیا تو اس کی کئی جدائیاں ہوئیں۔ اس کا تعلق عالم مالاکوت، عالم جبروت سے تھا جہاں کوئی کثافت نہ تھی لیکن اس مادی دنیا میں آگئی تو اپنیجدائیوں کی شکایت کرتی ہے اس روح کی بے تابی کی آواز سے مولانا روم نے مثنوی شروع کی۔ سال میں چار موسم ہوتے ہیں۔ سردیوں کا موسم جنوری اور فروری میں آتا ہے جو مارچ ختم ہوجاتا ہے پھر بہار کا موسم آجاتا ہے بہار کا موسم ختم ہوتا ہے تو گرمیوں کا موسم آتا ہے۔ گرمیوں کے بعد خزاں کا موسم آتا ہے۔

سوشیالوجی میں بھی یہی ہے اک سو سال کے عرصہ میں چار موسم گزرتے ہیں۔ صدی کے ایک سال کا موسم 25 برس کا ہوتا ہے۔ ایک بچہ 25 برس کی عمر میں جوان ہوتا ہے اس کی شادی ہوجاتی ہے۔ 25 برس بعد اس کا بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ ہر 25 برس کے بعد ایک نئی نسل آتی ہے۔ جو 25 برس قبل کے حالات سے آگاہ نہیں ہوتی کہ اس وقت کے روحانی، اخلاقی حالات کیسے تھے؟ جن کی وجہ سے بہار تھی۔

پہلے لوگوں کے احوال کے حوالے سے ایک واقعہ ہے۔ ایک صوفی درویش تھے جو صحر امیں جارہے تھے وہی سے ایک غیر مسلم تاتاری گزر رہا تھا اس کا جی چاہا کہ میں اس درویش کو تنگ کروں، اس نے ایک سوال کیا اے درویش بتاؤ! تمہاری داڑھی اچھی ہے یا میرے شکاری کتے کی دم؟ دراصل وہ ایسی باتیں کرکے اس کو غیرت دلانا چاہتا تھا کہ وہ جواب میں کہے گا کہ داڑھی سنت ہے تم اس کو کتے کی دم کے ساتھ ملا رہے ہو۔ وہ طیش میں آجائے گا اس طرح میں اس کوکوڑے ماروں گا۔ وہ درویش کیونکہ صوفی تھا اس نے کہا ہاں! اگر تو قیامت کے دن مولانا نے بخش دیا تو میری داڑھی اچھی ہے، اگر بخشش نہ ہوئی تو تیرے کتے کی دم اچھی ہے اس ایک جملے سے اس کی کایا پلٹ گئی۔ اس نے درویش سے کہا چپکے سے نکل جاؤ۔ میرا من مسلمان ہوگیا ہے۔ اب مجھے ماحول تیار کرلینے دو، جب ماحول اسلام قبول کرنے کا تیار ہوجائے گا آجانا، سب کو کلمہ پڑھا دینا۔ اس زمانے میں ان اچھے لوگوں کی وجہ سے بہار تھی۔ ان اچھوں میں مولانا رومؒ بھی تھے۔

عرس مبارک :

جب 672 کا زمانہ آیا تو قونیہ میں زلزلہ آیا جو 40 روز تک رہا۔ لوگ پریشان ہوکر مولانا روم کی خدمت میں آئے اور پوچھا حضور! زلزلہ ختم نہیں ہورہا اس کا سبب کیا ہے؟ مولانا رومؒ نے فرمایا: زمین بھوکی ہے اورلقمہ تر چاہتی ہے۔ ان شاء اللہ اسے جلد مل جائے گا 672 میں اسی سال مولانا روم وصال پاگئے۔

مولانا رومیؒ کے سات سو چوالیسویں عرس کی تقریبات ترکی کے شہر قونیا میں سات سے سترہ دسمبر تک جاری رہتی ہیں۔ مولانا رومیؒ کے سالانہ عرس کو ’شب عروس‘ کہا جاتا ہے۔

منقبت :

مولانا رومی علامہ اقبالؒ کے روحانی پیر ومرشد تھے۔علامہ اقبالؒ نے بارہا اس بات کا اظہار کیا کہ وہ انھیں اپنا روحانی مرشد مانتے ہیں اور انھوں نے بارہا اپنے کلام میں ان کاتذکرہ کیاہے۔انھوں اپنے کلام میں پیرِ رومیؒ، پیر یزدانی، پیرِ حقیقت سرشت اور پیرِ عجم کے نام سے یاد کیااور ان سے عقیدت کا اظہار کیا جیسے:

رازِ سمنی مرشد رومی کشود
فکر من آستانش در سجود

علامہ اقبالؒ کے یہاں اکثر و بیشتر مقامات پر مولانا رومیؒ کے موضوعات پر کلام دکھائی دیتا ہے جیسے عشق و عقل میں عشق کو ترجیح دینا، جبر وقدر کے موضوع میں عمل اور جہد مسلسل کو بہتر جاننایا اخلاقی موضوعات کا بیان۔علامہ اقبالؒ بڑی حد تک ایسے موضوعات میں مولانا رومیؒ سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔علامہ اقبالؒ نے اپنی نظم پیر و مرید میں مولانا رومیؒ کے اشعار میں اپنی الجھنوں کا حل تلاش کیا ہے۔ جیسے ایک مقام پر فرماتے ہیں:
علامہ اقبالؒ :

زندہ ہے مشرق تری گفتار سے
اُمتیں مرتی ہیں کس آزار سے؟

پیر رومیؒ :

ہر ہلاک ِ اُمت پیشیں کہ بود
زانکہ بر جندل گماں بردند عود

علامہ اقبالؒ مولانا رومیؒ کی مثنوی کے عظیم خیالات سے بے حد متاثر ہیں۔
رنگ آہن محو رنگ آتش است آتشی می لا فد و آہن وش است

مولانا رومیؒ نے اکثر جگہ عشق کو آگ سے تشبیہ دی ہے۔ عشق ایسا شعلہ ہے جو چیزوں کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور عاشق ایسا فولاد ہیں جو آگ میں داخل ہوتا ہے۔ آگ کی تب و تاب و سوز سے گرم ہو جاتا ہے اور گویا اس کے مثل ہو جاتا ہے۔ یہی خیال عاشق کا ہے، وہ آتش عشق یعنی محبوب حقیقی میں اپنے آپ کو اس قدر مدغم کر دیتا ہے کہ محبوب کی تمام صفات یعنی گرمی و روشنی سے منصف ہو جاتا ہے۔ دوسرے معنوں میں اس میں اوصاف خداوندی پیدا ہو جاتا ہے۔

من آن روز بودم کہ اسما نبود نشان از وجود مسما نبود
نما شد مسما واسما پد ید درآن روز کا نجامن ومانبود

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان روح تھا اور ارواح میں خدا کے قریب تھا، پھر انسان کو جسم عطا ہوا اور وہ مادی زندگی سے آلودہ ہو کر اس دنیا میں آ گیا۔ آپنے مرکز سے جدا ہو گیا۔ دنیا کی دلچسپیاں اسے خدا سے غافل کر دیتی ہیں اور وہ ان میں الجھ کر اپنی اصلیت سے دور ہو جاتا ہے لیکن اپنی حقیقت سے با خبر روح اپنے اصل کی طرف جانے کے لیے بے قرار رہتی ہے اور اس جسد عنصری سے آزاد ہو کر پھر اپنے مقدس عالم ارواح میں چاہتی ہے مولانا جلال الدین رومیؒ اپنی مشنوی کا آغاز تمشلا اس بے قررار روح کی فریاد سے کیا ہے
جملہ معشوق است و عاشق پردہ ای

وحدت شہود کے متعلق آہن اور آہن کی مشال مثنوی میں مو جود ہے
رنگ آہن محو رنگ آتش است
زآتشی می لا فد وہ آہن وش است
چون بہ سرخی گشت ہمچو زرکان پس انا النار است لافش بیگمان

وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ایک ہے۔ اس کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے۔ اللہ کا کوئی اور شریک نہیں۔ اہل تصوف کا یہ عقیدہ ہے کہ ہمہ اوست، کائنات میں صرف اللہ ہی کی ذات ہے اس کے سو ا اور کچھ نہیں۔ جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے سب اللہ ہی اللہ ہے۔ کائنات کی تمام اشیاء جو جسم اختیار کیے ہوئے محدود صورت میں ہمیں نظر آتی ہیں، یہ سب خداوندی کی مظاہر ہیں۔ صوفیا کا یہ عقیدہ ہمہ اوست کہلاتا ہے۔ اسے نظریہ وحدت الوجود بھی کہتے ہیں۔ وحدت وجود میں شخصیت فنا ہو جاتی ہے۔ وحدت شہود میں شخصیت قائم رہتی ہے۔ مشلاَ چراغ، آفتاب کی روشنی میں گم ہو جاتا ہے لیکن اپنی روشنی قائم رکھتا ہے اور لوہا آگ میں آگ کی طرح سرخ ہو جا تا ہے لیکن وہ آگ نہیں بن جاتا۔ جب یہ صفات نہیں رہتی تو لوہا اپنی ہستی الگ قائم رکھتا ہے۔ مولانا جلال الدین رومی ؒ کی مثنوی میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں قسم کے خیا لات کا اظہار ہوا ہے۔مولانا ہدایت اور تعلیم کو سخن پردازوں اور شاعری کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے پیش نظر عالم وعارف بھی ہیں اور مبتدی اور عالی بھی۔ ان کا روئے سخن سب کی طرف ہے۔ اس لیئے زبان بھی ایسی استعمال کی ہے جو سب کی سمجھ میں آسکے۔