حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
- Admin
- Mar 15, 2021
آپؒ کا پورا نام شیخ سیّد ابو الحسن علی ہجویریؒ ہے۔ کنیت ابو الحسن لیکن عوام و خواص سب میں “گنج بخشؒ” یا “داتا گنج بخشؒ” (خزانے بخشنے والا) کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ 400 ہجری میں غزنی شہر سے متصل ایک بستی ہجویر میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد بزرگ وار کا اسم گرامی سید عثمان جلابی ہجویریؒ ہے۔ جلاب بھی غزنی سے متصل ایک دوسری بستی کا نام ہے جہاں سید عثمانؒ رہتے تھے۔ علی ہجویری، حضرت زید ؒکے واسطے سے امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔
ہجویر اور جلاب غزنین کے دو گاؤں ہیں شروع میں آپ کا قیام یہیں رہا اس لیے ہجویری اور جلابی کہلائے۔ سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔ روحانی تعلیم جنیدیہ سلسلہ کے بزرگ ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ سے پائی۔
آپؒ اپنےمرشد کے حکم سے1039ء میں لاہور پہنچے۔کشف المحجوب آپؒ کی مشہور تصنیف ہے۔لاہور میں بھاٹی دروازہ کے باہر آپؒ کا مزار مرجع خلائق ہے۔
آپ کا شجرئہ نسب مخدوم علی ؒبن عثمانؒ بن سیّد علیؒ بن عبدالرحمانؒ بن سیّد عبداللہ ؒ(شجاع شاہ) بن ابوالحسن ؒعلیؒ بن حسین اصغر ؒبن سیّد زید ؒشہید بن حضرت سیّدنا امام حسن علیہ السلام بن حضرت علی ؓ پر مکمل ہوتا ہے ۔
آپؒ کے والد بزرگ وار کا اسم گرامی سید عثمان جلابی ہجویریؒ ہے۔
آپؒ کا خاندان ایک علمی خاندان سمجھا جاتا تھا جو افغانستان کے شہر غزنی کے دو محلوں ہجویر اور جلاب میں آباد تھا۔ اِس لئے آپ ؒعلی بن عثمان بن علی الجلابی الہجویری ‘غزنوی کہلاتے ہیں ۔
آپؒ نے اِبتدائی تعلیم وتربیت اپنے خاندانی بزرگوں سے غزنی میں حاصل کی۔ اِس کے بعد علومِ ظاہر وباطن کی تکمیل کیلئے اورزمین کی سیروسیاحت کیلئے نکل کھڑے ہوئے اور ماور النہر‘ آذر بایئجان‘فرغانہ ‘خراسان ‘مرو وغیرہ بلاد اِسلامیہ میں تشریف لے گئے۔جہاں اپنے زمانے کے اَربابِ فضل وکمال اور وقت کے چوٹی کے مشائخ کرام سے علمی اِستفادہ کرتے رہے۔ آپ کے اَساتذہ میں حضرت ابوالقاسمؒ، عبدالکریم: بن ہوازن:، ابوالعباسؒ ،احمدؒبن محمد القصاب ؒ‘شیخ ابوسعید ابوالخیرؒ نہایت نامور ہستیاں ہیں۔ صرف ملک خراسان میں آپ ؒنے تین سو(۳۰۰) اَساتذہ سے علم حاصل کیا ۔
آپؒ قطبِ وقت حضرت ابو الفضل محمد بن الحسن الختلی الحنبلی ؒ کی داستانیں سنا کرتے تھے۔ آتشِ شوقِ دیدار آپ تک لے چلی ۔شیخِ کامل کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ حضرت شیخ ختلیؒ کی نگاہ آپ پرپڑی تو اَنوار وتجلیات برسنے لگے۔ سلسلہ ٔجنیدیہ میں حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن الحسن الختلی جنیدی (۴۶۰ھ ) سے بیعت ہونے کے بعد پیری مریدی کا یہ رشتہ اِتنا محکم ہوگیا کہ ہمہ وقت آپؒ کی خدمت میں حاضر رہتے ۔ جب اِکتسابِ معرفت کی بلندی پر پرواز کرنے لگے تومرشد نے آپؒ کو ہندوستان جانے کا حکم صادر فرمایا ۔
آپؒ کے اساتذہ میں شیخ ابو العباس اشقاقیؒ، شیخ ابو جعفر محمؒد بن المصباح الصید لانیؒ، شیخ ابو القاسم عبد الکریمؒ بن ہوازن القشیریؒ، شیخ ابوالقاسمؒ بن علیؒ بن عبد اللہ الگرگانیؒ، ابو عبد اللہ محمد ؒبن علی المعروف داستانی بسطامیؒ، ابو سعید فضل اللہؒ بن محمد مہینیؒ اور ابو احمد مظفرؒ بن احمدؒ بن حمدانؒ کے نام ملتے ہیں.
شیخ ابو العباس اشقاقی ؒکے بارے میں حضرت علی ہجویریؒ بیان کرتے ہیں کہ آپ علم اصول اور فروع میں امام اور اہل تصوف میں اعلٰی پایہ کے بزرگ تھے۔ مجھے آپ سے بڑی محبت تھی اور آپ بھی مجھ پر سچی شفقت فرماتے تھے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، آپ کے مانند کوئی آدمی نہیں دیکھا۔ نہ آپ سے بڑھ کر شریعت کی تعظیم کرنے والا کوئی دیکھا۔ اکثر فرمایا کرتے: اشتھی عدماً لا وجود لہ۔ یعنی میں ایسی نیستی چاہتا ہوں جس کا کوئی وجود نہ ہو۔ یہ وہی بات ہے جو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔ آپ نے ایک مرتبہ ایک تنکا اٹھایا اور فرمایا: اے کاش میری ماں نے مجھے نہ جنا ہوتا۔ اے کاش میں یہ تنکا ہوتا۔ ایک دفعہ میں شیخ اشقاقی ؒکے پاس آیا تو آپ پڑھ رہے تھے:
ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً عَبدً امَہلُو ًکاًلاَیَقدِرُعَلٰی شَیئیً (75:16)۔
یعنی “اللہ ایک مثال دیتا ہے، ایک غلام ہے جو دوسرے کا مملوک ہے اور کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا”۔ بار بار اسے پڑھ رہے تھے اور رو رہے تھے، حتٰی کہ آ پ بے ہوش ہو گئے۔ اور میں نے سمجھا کہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میں نے عرض کیا، اے شیخ! یہ کیا حالت ہے؟ فرمایا کہ گیارہ سال ہو گئے ہیں، میرا ورد یہی ہے، اس سے آگے نہیں گزر سکا۔
شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح الصید لانی ؒکے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپؒ صوفیائے متاخرین میں منجلمہ روسائے متوصفین میں سے تھے۔ علم حقیقت میں بہت فصیح البیان تھے۔ حسین بن منصورؒ کے طریق تصوف کی طرف مائل تھے۔ آپ کی بعض تصانیف میں نے ان سے پڑھی ہیں۔
ابو القاسمؒ بن علی ؒبن عبد اللہ الگرگانیؒ کے متعلق لکھتے ہیں کہ اپنے وقت میں بے نظیر تھے۔ وقت کے تمام طالبان حق کا آپ پر اعتماد تھا۔ علوم و فنون میں بہت ماہر تھے۔ آپؒ کا ہر مرید زیور علم سے آراستہ تھا۔ مجھ سے بہت احترام سے پیش آتے تھے۔ اور بہت توجہ سے بات سنتے تھے، حالانکہ میں آپ کے مقابلہ میں نو عمر بچہ تھا۔ ایک روز میں آپ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آپ مجھ سے اس قدر عاجزی اور انکسار سے پیش آتے ہیں۔ بغیر اس کے کہ میں کوئی بات کہوں، آپؒ نے فرمایا: اے میرے باپ کے دوست! خوب جان لے کہ میری یہ عاجزی اور انکسار تیرے لیے نہیں، میری یہ عاجزی احوال کے بدلنے والے کے لیے ہے اور یہ تمام طالبان حق کے لیے عام ہے۔ یاد رکھ کہ آدمی خیالات کی قید سے کبھی بھی رہائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے بندگی کرنا لازمی ہے۔ خدا کے ساتھ بندگی کی نسبت سے کام رکھ۔ اس ایک نسبت کے سوا دوسری تمام نسبتوں کو اپنے سے دور کر دے۔ آپ کی کتابیں مشکل ہیں۔
ابو القاسم بن ہوازن القشیریؒ کے حالات میں تحریر فرماتے ہیں کہ اپنے زمانہ میں نادرالوجود اور بلند مرتبہ بزرگ تھے۔ ہر فن میں آپ کی تصانیف محققانہ اور عمدہ ہیں۔ بے کار بحث و گفتگو اور لغو باتوں سے آپ بالکل الگ رہتے تھے۔ حسین بن منصورؒ کے بارے میں صوفیا میں بحثیں ہوتیں۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ مردود اور دوسرے کے نزدیک مقبول بارگاہ تھے۔ آپؒ فرماتے کہ اگر منصور ارباب معافی وحقیقت میں سے تھا تو کوئی چیز اسے خداوند کریم سے علاحدہ نہیں کر سکتی اور اگر خدا کی درگاہ سے مردود تھا تھو مخلوق میں سے کوئی اسے بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں بنا سکتا۔ ہم اسے حوالہء خدا کرتے ہیں۔ آپ ؒنے فرمایا
مَثَلَ الصّوفِی کَعِلَّۃِ البَرسَامِ اّوَّلہ ھِذیَان وَاٰخِرُہ سَکُوًتُ فَاِزَاتَمَکَّنَ خَرَسَ۔
یعنی جو خیال آئے اسے پاگلوں کی طرح بیان کرتے چلے جانا، ہے اور اس کا آخر سکوت ہے۔ اور جب آدمی درجہ تمکین کو پہنچ جاتا ہے تو گونگا ہو جاتا ہے۔
اپنے استاد ابو عبد اللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامیؒ کے متعلق فرماتے ہیں کہ آپؒ تمام علوم کے عالم اور درگاہ حق کے اہل حشمت میں سے تھے۔ بہت نیک خُلق تھے۔ آپؒ کا کلام مہذب اور اشارات لطیف ہیں۔ میں نے ان کی کتاب۔ معانی انفاس۔ کی چند جزیں ان سے سُنی ہیں۔ شیخ سہلکی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ بسطام میں ٹڈی دل آیا۔ تمام درخت اور کھیت اس کے بیٹھنے کی وجہ سے سیاہ ہو گئے۔ لوگوں نے بہت شور مچایا۔ شیخ نے پوچھا، یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ٹڈی دل آئی ہے اور لوگ سخت غمزدہ ہیں۔ شیخ اُٹھے اور کوٹھے پر تشریف لے گئے اور منہ آسمان کی طرف کیا۔ اُسی وقت ٹڈی اُڑ گئی اور عصر کی نماز تک ایک ٹڈی بھی کہیں نظر نہیں آتی تھی اور کسی کھیتی کا ایک پتہ تک بھی ضائع نہ ہوا۔
ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینیؒ کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ آپ طریقت کے جمال اور وقت کے صاحب دبدبہ بادشاہ تھے اور تمام اہل زمانہ آپ کے گرویدہ تھے۔ تعلیم ابتدا میں ابو علی زاہد سے سرخس میں حاصل کی۔ ایک دن میں تین دن کا سبق لیتے اور تین دن اللہ تعالٰیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے۔ آپ نے مسلسل ریاضت اور مجاہدہ کیا۔ یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اعلیٰ مرتبہ پر پہنچایا۔ بہت شاہانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ شیخ ابو مسلم فارسی نے مجھے بتایا کہ میری گودڑی بہت میلی کچیلی تھی۔ آپ کے پاس پہنچا، تو آپ بہت شاہانہ لباس میں تخت پر دراز تھے اور اوپر مصری دیبا کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر دل میں خیال کیا کہ اس ٹھاٹھ کے ساتھ فقر کا دعویٰ بھی عجیب بات ہے۔ مجھے دیکھو کہ میں اس گودڑی میں فقر کا دعویٰ کرتا ہوں۔ لیکن میرے کوئی بات زبان پر لائے بغیر آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ باتیں کس دیوان میں لکھی پائی ہیں؟ میں اس پر اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ؛
اَلَتّصَوَّفُ قَیَامُ القَلبِ مَعَ اللہِ،
یعنی تصوف تو اللہ سے دل لگانے کا نام ہے۔
ایک دفعہ آپؒ نیشا پور سے طوس کو جا رہے تھے۔ راستے میں سرد گھاٹی پڑتی ہے۔ آپ اپنے پاؤں میں سردی محسوس کر رہے تھے۔ ساتھ جو درویش تھا وہ بیان کرتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ اپنے رومال کے دو ٹکڑے کر کے آپ کے پاؤں پر لپیٹ دو۔ لیکن پھر خیال آیا کہ میرا رومال بہت اچھا ہے اسے ضائع کیوں کروں۔ لیکن میں نے کچھ کہا نہیں۔ طوس پہنچ کر ہم مجلس میں بیٹھے تھے کہ میں نے آپ سے سوال کیا۔ اے شیخ حقّانی! الہام اور وسوسہ میں کیا فرق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ الہام تو وہ ہے جس نے تیرے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ اپنے رومال کر ابو سعید کے پاؤں کے گرد لپیٹ دوں تاکہ اس کے پاؤں کو سردی نہ لگے اور شیطانی وسوسہ وہ تھا جس نے تجھے ایسا کرنے سے روکا۔
ابو احمد مظفر بن احمد بن حمدان ؒکے حالات میں لکھتے ہیں کہ آپ اولیاء کے رئیس اور صوفیوں کے ناصح تھے۔ اللہ تعالٰی نے ریاست ہی کے مسند پر آپ پر بھید کھولا اور کرامت کا تاج آپ کے سر پر رکھا۔ میں نے خود ان سے سنا کہ دوسرے لوگوں نے جو کچھ بیابانوں اور جنگلوں کی منزلیں قطع کر کے پایا مجھے اللہ تعالٰیٰ نے وہ چیزیں مسند اور بالا نشینی میں عطا فرمائی۔ فنا اور بقاء میں آپ کا کلام بہت اچھا ہے۔ میں ایک روز کرمان سے آپ کے پاس آیا۔ میرے کپڑے راستے کی گرد سے اَٹے ہوئے تھے۔ آپ نے مجھ سے کہا، کہو ابوالحسن کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ میرا دل سماع کو چاہتا ہے۔ آپ نے اسی وقت انتظام کر دیا اور قوالوں کو بلایا، لڑکپن کا زمانہ تھا۔ پہلے ہی کلمات کے سماع سے بے قرار ہو گیا۔ کچھ وقفہ کے بعد جب میرا غلبہ اور جوش کچھ کم ہوا تو پوچھا، کہو، اس سماع سے کیا گزری؟ میں نے عرض کیا۔ اے شیخ! میں بہت خوش ہوا ہوں۔ فرمایا کہ ایک وقت تجھ پر ایسا آئے گا کہ یہ سماع اور کوے کی آواز تیرے لیے یکساں ہو جائے گی۔ سماع میں قوت اسی وقت تک ہے جب تک مشاہدہ حاصل نہیں ہوتا۔ دیکھو، کہیں اس کی عادت نہ کر لینا کہ تیری طبیعت کا جز بن جائے۔ اگر ایسا ہوا تو تو یہیں رہ جائے گا۔
طریقت میں آپؒ کے شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلیؒ ہیں۔ ان کے حالات قلمبند کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طریقت میں میری اقتداءآپ رحمتہ اللہ علیہ ہی کے ساتھ ہے۔ تفسیر، حدیث اور تصوف تینوں کے آپ عالم تھے۔ تصوف میں آپ حضرت جنیدؒ کے مذہب پر تھے۔ حضرت شیخ حضرمیؒ کے مرید اور حضرت سروانیؒ کے مصاحب تھے۔ ساٹھ سال تک مخلوق سے گم اور پہاڑوں میں گوشہ نشین رہے۔ زیادہ تر قیام جبل لگام پر رہتا تھا۔ میں نے آپ سے زیادہ بارعب اور صاحب ہیبت کوئی شخص نہیں دیکھا۔ صوفیوں کے لباس سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ ایک مرتبہ میں آپ کو وضو کرانے کے لیے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک آزاد آدمی ہوں آخر میں ان پیروں کی کیوں غلامی کروں جو قسمت میں لکھا ہے وہ ضرور پورا ہو گا۔ آپ نے فرمایا، بیٹا کو خیال تیرے دل میں پیدا ہوا ہے میں اسے جانتا ہوں، ہر کام کا ایک سبب اور ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ خدمت اور ملازمت آدمی کی بزرگی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حق تعالٰیٰ چاہتا ہے تو ایک سپاہی زادے کو تاج شاہی پہنا دیتا ہے۔
جس روز آپ کی وفات ہوئی تو آپ بانیاں اور دمشق کے درمیان پہاڑ پرواقع ایک گاؤں بیت الجن میں تھے اور آپ کا سر میری گود میں تھا۔ میرا دل سخت مضطرب اور تکلیف میں تھا، جیسے کہ ایسے محسن اور دوست کی علیحدگی کے خیال سے ہونا ہی چاہیے تھا۔ آپ نے فرمایا، بیٹا! میں اعتقاد کا مسئلہ بیان کرتا ہوں۔ اگر تو اپنے آپ کواس کے مطابق درست کر لے گا تو تیرے دل کی یہ تمام تکلیف دور ہو جائے گی۔ یہ بات یاد رکھ کہ اللہ عزل و جل کوئی کام الل ٹپ نہیں کرتا، وہ تمام حالات کو ان کے نیک وبد کا لحاظ رکھ کر پیدا فرماتا ہے۔ تیرے لیے لازم ہے کہ خدا کے فعل میں اس سے جھگڑا نہ کر اور جو کچھ وہ کرتا ہے۔ اس پر رنجیدہ نہ ہو۔ آپ نے ابھی اتنی بات فرمائی تھی کہ اپنی جان خداوند کریم کے سپرد کر دی۔
کسب روحانی کے لیے آپ (حضرت علی ہجویری ) نے شام، عراق، فارس، قہستان، آزربائیجان، طبرستان، خوزستان، کرمان، خراسان، ،وراء النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا۔ ان ممالک میں بے شمار لوگوں سے ملے اور ان کی صحبتوں سے فیض حاصل کیا۔ صرف خراسان میں جن مشائخ سے آپ ملے ان کی تعداد تین سو ہے۔ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے خراسان میں تین سو اشخاص ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے صرف ایک سارے جہان کے لیے کافی ہے۔
اپنے زمانے کے جن بزرگوں سے آپ خاص طور پر متاثر ہوئے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ ان کے بارے میں تاثرات بھی قوسین میں درج ہیں۔ شیخ محمد زکی بن العلا ؒ(زمانے کے سردار اور محبت کا شعلہ)، شیخ القاسم سدسی ؒ(پیر مجاہدہ)، شیخ الشیوخ ابو الحسن بن سالبہؒ (توحید میں روشن بیان)، شیخ ابواسحاق بن شہریارؒ(صاحب دبدبہ)، شیخ ابوالحسن علی بن بکرانؒ (بزرگ صوفی)، شیخ ابو عبد اللہ جلیدیؒ (بہت احترام والے)، شیخ ابو طاہر مکشوفؒ (جلیل القدر بزرگ)، شیخ احمد بن شیخ خرقانیؒ، خواجہ علی بن الحسین السیر کانیؒ(وقت کے سیاح)، شیخ مجتہد ابوالعباس دامغانی ؒ(خدا کے اقبال کا سایہ)، خواجہ ابو جعفر محمد بن علی الجومینی ؒ(محقق بزرگ)، خواجہ رشید مظفر بن شیخ ابو سعیؒد (دلوں کا قبلہ)، خواجہ شیخ احمد جمادی سرخسیؒ (وقت کے پہلوان) اور شیخ احمد نجاّر سمرقندیؒ (زمانے کے بادشاہ) رحمہم اللہ۔
1- اپنے تلاش و جستجو کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک مشکل پیش آئی۔ اس کے حل کے لیے میں نے بہت مجاہدے کیے۔ مگر یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ اس سے پہلے بھی مجھے ایک مشکل پیش آئی تھی اور اس کے حل کے لیے میں نے حضرت شیخ ابو یزیدؒ کی قبر کی مجاوری اختیار کر کے اس پر غور و فکر کیا تھا اور میری وہ مشکل وہاں حل ہو گئی تھی۔ اب کے میں نے پھر ایسا کیا۔ برابر تین ماہ تک ان کا مجاور (پڑوسی) بنا رہا۔ ہر روز تین مرتبہ غسل کرتا رہا۔ اور تیس دفعہ وضو کرتا رہا۔ لیکن میری یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ بالآخر میں نے خراسان جانے کا ارادہ کیا اور راستے میں رات کے وقت ایک خانقاہ میں رات بسر کرنے کے لیے ٹھہرا۔ وہاں صوفیوں کی ایک جماعت بھی تھی۔ میرے پاس اس وقت موٹے کھُردرے ٹاٹ کی ایک گودڑی تھی۔ اور وہی میں نے پہن رکھی تھی۔ ہاتھ میں ایک عصا اور کوزہ (لوٹا) تھا۔ اس کے سوا اور کوئی سامان میرے پاس نہیں تھا۔
ان صوفیوں نے مجھے بہت حقارت کی نظر سے دیکھا۔ اور اپنے خاص انداز میں ایک دوسرے سے کہا کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے، کیونکہ میں فی الواقع ان میں سے نہ تھا۔ میں تو محض ایک مسافر کی حیثیت سے رات بسر کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچ گیا تھا۔ ورنہ ان کے طور طریقوں سے میرا کوئی سروکار نہ تھا۔ انھوں نے خانقاہ کے نیچے کے ایک کمرہ میں مجھے بٹھا دیا۔ اور ایک سُوکھی روٹی اور وہ بھی روکھُی میرے آگے رکھ کر خود کھانے کے لیے اوپر چوبارہ میں جا بیٹھے۔ جو کھانے وہ خود کھا رہے تھے ان کی خوشبو مجھے آ رہی تھی۔ اور اس کے ساتھ چوبارہ پر سے وہ طنزیہ انداز میں مجھ سے باتیں کرتے تھے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو خربوزے لے کر بیٹھ گئے۔ اور چھلکے مجھ پر پھینکتے رہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت کی خوشی اس وقت میری توہین پر موقوف تھی۔ میں اپنے دل میں خدا سے کہہ رہا تھا، بارِ خدایا، اگر میں نے تیرے دوستوں کا لباس نہ پہنا ہوا ہوتا تو میں ضرور ان کی ان حرکات کا مزا ان کو چکھا دیتا۔ لیکن چونکہ میں اسے خداوند تعالٰیٰ کی طرف سے ابتلا سمجھ کر برداشت کر رہا تھا، اس لیے جس قدر وہ طعن وملامت مجھ پر زیادہ کرتے تھے میں خوش ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اس طعن کا بوجھ اٹھانے سے میری وہ مشکل جس کے لیے میں مجاہدوں اور اس سفر کی مشقت اٹھا رہا تھا وہیں حل ہو گئی۔ اور اسی وقت مجھ کو معلوم ہو گیا کہ مشائخ جاہلوں کو اپنے درمیان کیوں رہنے دیتے ہیں اور ان کا بوجھ کس لیے اٹھاتے ہیں۔ نیز یہ کہ بعض بزرگوں نے ملامت کا طریقہ کیوں اختیار کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس سے بعض اوقات وہ عقدے حل ہو جاتے ہیں جو دوسرے طریقوں سے حل نہیں ہوتے۔
2- عراق کا ایک واقعہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ عراق میں اپنے قیام کے زمانے میں ایک دفعہ میں دنیا کمانے اور اسے خرچ کرنے میں بہت دلیر ہو گیا تھا۔ جس کسی کو ضرورت پیش آتی وہ میری طرف رجوع کرتا اور میں نہ چاہتا کہ میرے دروازے سے کوئی خالی جائے۔ اس لیے اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا، یہاں تک کہ میں بہت زیادہ مقروض اور اس صورت حال سے پریشان ہو گیا۔ آخر وقت کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے مجھے لکھا؛۔ بیٹا دیکھو! اس قسم کی مشغولیت میں کہیں خدا سے دور نہ ہو جاؤ، یہ مشغولیت ہوائے نفس ہے۔ اگر کسی کے دل کو اپنے سے بہتر پاؤ۔ تو اس کی خاطر پریشانی اُٹھاؤ۔ تمام مخلوق کے کفیل بننے کی کوشش نہ کرو۔ کیوں کہ اپنے بندوں کے لیے خدا خود کافی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس نصیحت سے مجھے سکون قلب حاصل ہوا۔ اور میں نے یہ جانا کہ مخلوقات سے دور رہنا صحت وسلامتی کی راہ ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طرف نہ دیکھے تاکہ کوئی اور بھی اس کی طرف نہ دیکھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ آدمی خود ہی اپنے آپ کو اہم اور بڑی چیز عیاں کرتا ہے ورنہ دنیا اسے کچھ بھی نہیں سمجھتی۔ وہ تو صرف اس سے اپنا کام نکالتی ہے۔
آپ کے نزدیک صوفی صفا سے مشتق ہے۔ اور صفا کی اصل دل کو غیر اللہ سے منقطع اور دنیا غدار سے خالی کر کے اسے اللہ سے جوڑنا ہے۔ گویا اس کا مطلب اخلاص اور سچی محبت کے ساتھ خدا کی بندگی کی راہ اختیار کرنا ہے۔ نہ کہ کوئی خاص وضع قطع اختیار کرنا۔ آپ فرماتے ہیں؛ کہ طالب کو تمام احوال میں شرع اور علم کا پیرو ہونا چاہیے۔ کیونکہ سلطان علم سلطان حال پر غالب اور اس سے افضل ہے۔ چنانچہ آپ چالیس برس مسلسل سفر میں رہے لیکن کبھی نماز باجماعت ناغہ نہیں کی۔ اور ہر جمعہ کی نماز کے لیے کسی قصبہ میں قیام فرمایا۔ عام رہن سہن عام لوگوں کی طرح رکھتے۔ صوفیوں کی ظاہری رسوم اور وضع قطع سے آپ شیخ طریقت شیخ ابوالفضل محمد بن ختلی رحمتہ اللہ علیہ کی طرح ہمیشہ مجتنب رہے۔ بلکہ اس سے آپ کو ایک گونہ نفرت تھی اور ان چیزوں کو ریا کاری ونمائش اور معصیت کا نام دیتے تھے۔
نکاح کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ جو شخص مخلوق میں رہنا چاہے اس کے لیے نکاح کرنا شرط ہے۔ اور اگر بغیر نکاح کے اس کے زنا میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے نکاح فرض ہے۔ لیکن جو مخلوق سے الگ تھلگ رہتا ہو اس کے لیے مجرد ( کنوارا) رہنا اچھا ہے تا کہ اس کی وجہ سے کوئی نیک بخت پریشان نہ ہو اور وہ بھی یکسوئی کے ساتھ اللہ کی ملازمت کر سکے۔ آپ چونکہ اپنی عمر کا بیشتر حصہ سفر اور مسافرت ہی میں رہے۔ اس لیے آپ نے شادی نہیں کی بلکہ تجرد(کنوارا ) کی زندگی گزار دی۔ لیکن تجرد کے ہلاکت خیز خطرات کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے گیارہ برس تزویج (نکاح) کی آفت سے بچایا۔ لیکن تقدیر کا لکھا سامنے آیا اور میں نے بن دیکھے ایک پری صفت کا دل و جان سے گرویدہ ہو گیا۔ اور ایک سال اس طرح اس میں مستغرق رہا کہ قریب تھا کہ میرا دین تباہ وبرباد ہو جاتا۔ لیکن اللہ تعالٰیٰ نے اپنے کمال لطف و مہربانی سے میرے دل پر عصمت و پاکیزگی کا فیضان فرمایا اور اپنی رحمت سے مجھے اس آفت سے نجات بخشی۔
آپؒ نے حسب ذیل کتب کی تصنیف فرمائی، لیکن اب کشف المحجوب کے سوا کوئی اور کتاب نہیں ملتی۔
کشف المحجوب
کشف الاسرار
منہاج الدین (یہ کتاب اصحابِ صفہ کے مناقب پر تھی۔)
الرعایتہ الحقوق اللہ
کتاب الفناد
اسرار الحزق المؤنات
سحر القلوب
کتاب البیان لاہل العیان
شعر وشاعری سے بھی آپؒ کو دلچسپی تھی اور آپؒ کا دیوان بھی تھا۔ کشف المحجوب میں اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ دوسروں کی تصانیف کو اپنے نام سے منسوب کر کے شائع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص نے مجھ سے میرے شعروں کا دیوان دیکھنے کے لیے مانگا اور پھر واپس نہیں کیا۔ اور اس کے شروع سے میرانام محو کر کے اپنے نام سے پیش کر دیا۔ چونکہ دیوان کا یہی ایک نسخہ تھا جو وہ لے گیا۔ اس لیے میں کچھ نہ کر سکا اور اس نے میری محنت کو برباد کر دیا۔
اسی طرح ایک اور شخص نے میری دوسری کتاب۔ منہاج الدین۔ جو میں نے تصوف پر تصنیف کی تھی، مجھ سے مانگی اور اس پر سے میرا نام مٹا کر عوام الناس میں اسے اپنے نام سے شائع کر دیا۔
آپؒ کے وصال شریف کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ سفینۃ الاولیاء میں دار شکوہ نے وصال باکمال 454ھ یا 464ھ ذکر کیا۔ غلام سرور لاہوری ؒنے خزینۃالاولیاءمیں تاریخ وصال 464ھ یا 466ھ ہے۔ اے ،آر نکلس مترجم کشف المحجوب کے نزدیک وصال باکمال 465ھ یا 469 کو ہوا ۔
آپؒ کا روضہ ناصر الدین مسعود کے بیٹے ظہیر الدین الدولہ نے تعمیر کروایا۔ اور خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی جلال الدین اکبر بادشاہ 1555ء تا 1605 ء کی تعمیر ہیں۔ خواجہ معین الدین اجمیریؒ 1639ء اور بابا فرید الدین گنج شکر ؒنے کسب فیض کے لیے آپ کے مزار پر چلہ کشی کی اور معین الدین اجمیریؒ نے چلہ کے بعد رخصت ہوتے وقت یہ شعر کہا؛۔
گنج بخش فیضِ عالم مظہر نورِ خُدا ناقصاں راپیرِ کامل، کاملاں را رہنما
اسی سے آپؒ کی گنج بخش کے نام سے شہرت ہوئی۔
آپؒ کا عرس ہر سال اسلامی مہینہ صفر المظفر کی 18 سے 20 تاریخ تک منایا جاتا ہے۔
علامہ اقبال ؒکو آپؒ سے بے حد عقیدت تھی‘ علامہ اقبالؒ اکثر آپؒ کے مزار پر روحانی فیض کے لیے حاضر ہوتے تھے۔علامہ اقبالؒ نے جب اپنا پہلا فارسی شعری مجموعہ اسرارِ خودی شائع کیا تو اُس میں ’حکایتِ نوجوانے از مرو کہ پیشِ حضرت سید مخدوم علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ آمدہ از ستم اعدا فریاد کرد‘ کے نام سے ایک باب شامل کیا۔ علامہ اقبال نے اس نظم میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت سید علی ہجویریؒ امت کے سردار ہیں’ آپ کا مزار بہت بڑے بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کیلئے مانند حرم ہے. پنجاب کی سر زمیں آپ کے دم سے زندہ ہو گئی’ ہماری صبح آپؒ کے آفتاب سے منور ہوئی (مراد برصغیر میں اسلام آپ ہی کی بدولت پهیلا)۔ آپؒ کی برکت سے ہمارے ہاں وہی دور تازہ ہوگیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اُس وقت کی اسلامی د نیا میں موجود تھا اور ان کے ارشادات سے دینِ حق کا شہرہ عام ہو گیا۔
” نفس کو اس کی خواہش سے دور رکھنا حقیقت کے دروازے کی چابی ہے۔ “