ایمانیات کے متعلق سوالات
- Admin
- May 15, 2021
السلام علیکم! کافی دن سے میرے دل میں عجیب اضطراری کیفیت ہے اور دل میں یہ خواہش اٹھ رہی ہے کہ مجھے تجدید ایمان کی ضرورت ہے۔برائے مہربانی میری راہ نمائی فرمائیں کہ تجدیدِ ایمان کیسے کیا جائے؟نیز میں حضور سیدنا محمود محئی الدین الگیلانی البغدادی مدظلہ کا بیعت ہوں کیا تجدید بیعت بھی کرنا ہوگی؟
کلمہ شہادت کی ادائیگی سے تجدید ایمان ہو جائے گی۔
اگر آپ نے کوئی کفریہ کلمہ نہیں کہا بلکہ دل میں وسوسہ ہے کہ آپ کو تجدید ایمان کی ضرورت ہے، تو درج ذیل وظفہ کو اپنا معمول بنالیں:
’’استغفرالله و اتوب الیه‘‘ دن میں سو (100) مرتبہ پڑھیں۔
ہر نماز کے بعد اول آخر گیارہ مرتبہ درودِ پاک پڑھ کر ایک مرتبہ آیت الکرسی اور آخری تین قل پڑھیں اور ہاتھوں پر پھونک کر سارے جسم پر مل لیں۔ اگر ممکن ہوتو پانی پر پھونک کر پی لیں۔ سوتے وقت بھی یہی وظیفہ کر کے سوئیں۔
اس کے علاوہ اگر کوئی وظائف پڑھ رہے ہیں تو فوراً چھوڑ دیں۔ نمازِ باجماعت کا پابندی سے اہتمام کریں۔ روزانہ کم از کم ایک رکوع بمع ترجمہ قرآنِ پاک کی تلاوت کریں۔ اگر کوئی بدعقیدہ یا بری صحبت ہے تو اسے ترک کر دیں۔
تجدید بیعت کی ضرورت نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
اللہ تعالی کےحکم اور رضا میں کیا فرق ہے؟
اوامر کو بجا لانے اور نواہی کو ترک کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ صادر کیا ہے، وہ احکام (حکم کی جمع) ہیں۔ جیسے ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ.
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔
النساء، 4: 59
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ.
اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو۔
البقرة، 2: 172
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.
اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
آل عمران، 3: 130
یہ احکامِ الٰہی کی چند ایک مثالیں ہیں۔ قرآنِ مجید میں بےشمار مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام بیان فرمائے ہیں۔
آپ نے اپنے سوال کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ کی خواہش کی وضاحت پوچھی ہے۔ خواہش کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، بلکہ اس کی بجائے رضا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام، صریح اور واضح انداز میں بیان کر دیے ہیں اور انسان کو بتا دیا ہے کہ اوامر کو بجا لانے اور نواہی کو ترک کرنے سے میں راضی ہوتا ہوں، مگر انسان کو ان اوامر و نواہی کے بجالانے پر مجبور نہیں کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.
اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔
الکهف، 18: 29
اور فرمایا:
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔
البلد، 90: 10
اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں پر انسان کو اختیار و ارادہ کی آزادی بخشی ہے، ان پر اسے اجر دینے اور مواخذہ کرنے کا وعدہ بھی فرما رکھا ہے۔ یہ اختیار و ارادہ انسان کا ذاتی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا عطاکردہ ہے اور اس کا استعمال اگر انسان، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرے تو اس سے رضائے الٰہی عطا ہوتی ہے۔ رضا، اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں کی جانب سے ہوتی ہے قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رضوان کا لفظ مخصوص کیا ہے۔ بندے کے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حق تعالیٰ سے راضی ہو، دین مبین اسلام سے راضی ہو، اللہ کے اس رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ر اضی ہو جنہوں نے یہ دین مبین ہم تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر دل سے یقین رکھے اور اپنے اوپر آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں کو سکون اور اطمینان سے قبول کرے۔ پس جو شخص اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، اسے اپنا نصب العین بنائے اور اس کی خاطر پیہم کوشش کرے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
قرآن ہے تو حدیث کی ضرورت کیوں؟ از راہِ کرم اس کا تفصیلی جواب بتائیں.
اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں فرمایا :
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَo
الانعام، 6 : 33
(اے حبیب!) بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ (بات) یقیناً آپ کو رنجیدہ کر رہی ہے کہ جو یہ لوگ کہتے ہیں، پس یہ آپ کو نہیں جھٹلا رہے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) ظالم لوگ اﷲ کی آیتوں سے ہی انکار کررہے ہیںo
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُواْ عَلَى مَا كُذِّبُواْ وَأُوذُواْ حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا وَلاَ مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللّهِ وَلَقدْ جَاءَكَ مِن نَّبَإِ الْمُرْسَلِينَo
الانعام 6 : 34
اور بیشک آپ سے قبل (بھی بہت سے) رسول جھٹلائے گئے مگر انہوں نے جھٹلائے جانے اور اذیت پہنچائے جانے پر صبر کیا حتٰی کہ انہیں ہماری مدد آپہنچی، اور اﷲ کی باتوں (یعنی وعدوں کو) کوئی بدلنے والا نہیں، اور بیشک آپ کے پاس (تسکینِ قلب کے لیے) رسولوں کی خبریں آچکی ہیںo
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَo
ا لبقرة، 2 : 8
اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیںo
گویا اﷲ پر ایمان رکھتے ہیں اور قیامت پر بھی مگر جس رسول محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲاور قیامت کی پہچان کرائی، ا س پر ایما ن لانے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ یہی منافق ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًاo
الاحزاب 33 : 69
اے ایمان والو! تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسٰی (علیہ السلام) کو (گستاخانہ کلمات کے ذریعے) اذیت پہنچائی، پس اللہ نے انہیں اُن باتوں سے بے عیب ثابت کردیا جو وہ کہتے تھے، اور وہ (موسٰی علیہ السلام) اللہ کے ہاں بڑی قدر و منزلت والے تھےo
گو یا ا پنے نبی کا کلمہ بھی پڑ ھنا اور اس کے خلاف محاذ آرائی کر کے اسے اذیت بھی دینا یہود کا وطیرہ ہے۔ اے مسلمانو! تم ایسی حرکتوں سے بازرہنا۔
رسو ل ا ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَo
المنفقو ن 63 : 5
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لئے مغفرت طلب فرمائیں تو یہ (منافق گستاخی سے) اپنے سر جھٹک کر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہوئے (آپ کی خدمت میں آنے سے) گریز کرتے ہیںo
اختیا را ت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انکار
وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَـذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَـا إِلَيْكَ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَـاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَoالَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo
الا عرا ف 7 : 157،156
اور تو ہمارے لئے اس دنیا (کی زندگی) میں (بھی) بھلائی لکھ دے اور آخرت میں (بھی) بیشک ہم تیری طرف تائب و راغب ہوچکے، ارشاد ہوا: میں اپنا عذاب جسے چاہتا ہوں اسے پہنچاتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہی لوگ ہی ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیںo(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo
یہ ہیں خیر امت کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کو اﷲ تعالیٰ نے درج ذیل اوصاف و اختیارات سے نوازا ہے :
وہ اﷲ کے بھیجے ہوئے ہیں۔
وہ غیب کی باتیں بتانے والے ہیں۔
کسی مخلوق سے کوئی کتاب پڑھے بغیر اﷲ کی تعلیم سے (اُمی) ساری دنیا و آخرت کے علوم و غیوب جانتے ہیں۔
اس نبی مکرم کی تعریف و توصیف تورات و انجیل میں لکھا پاتے ہیں۔
یہ نبی پاک لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔
پاکیزہ چیزیں حلال اور گندی چیزیں حرام کرتے ہیں۔
گویا جسے حلال کر دیں وہ ستھری ہے اور جسے حرام کر دیں جیسے کتا، بلی، چوہا، چھپکلی، گیدڑ، لومڑی، شیر، بھیڑیا، گدھا، خچر، کوا، چیل، گدھ، مگرمچھ، کیکڑے، کیڑے مکوڑے، سانپ، بچھو، کرلے، شکرا، باز وغیرہ نجس ہے۔ یاد رہے کہ قرآن کریم نے صرف ایک جانور خنزیر کو نجس اور پلید قرار دیا ہے، باقی کسی جانور کو پلید یا ناپاک نہیں بتایا، ہاں پاک جانور پر اگر بوقت ذبح اﷲ کا نام نہ لیا جائے یا غیر کتابی یعنی کافر ذبح کرے یا مردار یعنی شرعی ذبح کے بغیر مر جا ئے، جیسے لاٹھی لگنے، سینگ لگنے سے، اوپر سے گر کر یا پتھر وغیرہ لگنے سے، یا درندے کے ما رے ہوئے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ایک کے سوا باقی تمام کو حرام و نجس جانور قرآن نے نہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام کئے ہیں اور آج تک مسلما ن اللہ کے حرام کردہ پلید خنزیر کے سا تھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حرام کردہ جانوروں کو بھی حرام مانتے ہیں اور ان کے کھانے سے پرہیز کرتے ہیں، جیسے مذکورہ بالا فہرست سے واضح ہے اور ایسا کیوں نہ ہو اللہ پاک نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حرام و حلال مقرر کرنے کا مکمل اختیار دیا ہے اور جو بدبخت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام ومرتبہ کا ا نکار کرے ا س سے مسلمانوں کو لڑنے کا حکم ہے۔
جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلال و حرام مقرر کرنے کے اختیار کا انکار کرے، اس سے لڑو!
فرمان با ری تعا لیٰ ہے۔
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَo
ا لتو بة 9 : 29
(اے مسلمانو!) تم اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی جوابی) جنگ کرو (جنہوں نے تمہارے ساتھ کیے ہوئے معاہدۂ امن کو توڑ کر، جلا وطنی کے باوُجود جنگ احزاب میں مدینہ پر حملہ آور کفار مکہ کی افواج کی بھرپور مدد کی اور اب بھی تمہارے خلاف تمام ممکنہ سازشیں جاری رکھے ہوئے ہیں) جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یوم آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دین حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکم اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریںo
شیطان کا بہکاوا ہے کہ صرف قرآن کو مانو اور حدیث رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ مانو۔ مگر کیا کریں قرآن کی طرف آئے تو اس نے ہمیں بتایا جو اللہ اور اس کے رسول کے حرام کئے ہوئے امور کو حرام نہ مانیں ان سے لڑو۔
قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَo
آل عمران 3 : 32
آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتاo
احسن الحدیث کیا ہے ؟
اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ
الزمر39 : 23
اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں) اللہ نے اتا ری سب سے ا چھی کتا ب اول سے آخر تک ایک سی، دوہرے بیا ن والی۔ ‘‘
لھو الحدیث کیا ہے ؟
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌo
لقمان، 31 : 6
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لیے رسواکن عذاب ہےo‘‘
آیت کا پس منظر
نضربن حارث بن کلد دوسرے ممالک میں تجارت کے لئے جاتا وہا ں سے عجمیوں کی کتابیں خرید کر لاتا۔ یہ قصے کہانیاں قریش کو سناتا اور کہتا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم کو عاد و ثمود کے واقعات سناتے ہیں اور میں رستم و اسفند یار اور شاہان فارس کی کہانیاں سناتا ہوں، کچھ لوگ ان کہانیوں میں مشغول ہو گئے اور قرآن حکیم پڑھنے سننے سے رہ گئے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 14 : 36
اما م بخاری نے ایک باب باندھا ہے
’کل لهو باطل إذا شغل عن طاعة اﷲ ‘
’ہر کھیل باطل ہے جب اللہ کی اطاعت سے غافل کرے‘۔
حسن بصری نے کہا لھو الحدیث کا مطلب ہے کفرو شرک۔
رازی، تفسير کبير، 25 : 141
دیکھا؟ خود قرآن پاک میں وضاحت فرما دی گئی کہ لھوالحدیث سے مراد کھیل کود، گناہ اور شرک و کفر ہے۔
ابوامامہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن ولا خير فی تجارة فيهن وثمنهن حرام فی مثل هذا نزلت ومن الناس من يشتری لهوالحديث‘
ترمذی، الجامع، 5 : 345، رقم : 3195
’گانے والی عورتوں کو نہ بیچو، نہ خریدو، نہ ان کو اس کی تعلیم دو! ان کی تجارت میں کوئی خیر نہیں، ان کی قیمت حرام ہے، ایسی ہی باتوں کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیت نا زل ہوئی ہے اور لوگوں میں سے کچھ لھو الحدیث (بیہودہ گانے) خریدتے ہیں۔
اللہ و رسول میں تفریق کرنے والے پکے کافر ہیں
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاًo أُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًاo
النساء، 4 : 150. 151
بلا شبہ جو لوگ اﷲ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اﷲ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس (ایمان و کفر) کے درمیان کوئی راہ نکال لیںoایسے ہی لوگ درحقیقت کافر ہیں، اور ہم نے کافروں کے لئے رُسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہےo
اللہ ورسو ل میں تفریق نہ کر نے وا لے
وَالَّذِينَ آمَنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُواْ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُوْلَـئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللّهُ غَفُورًا رَّحِيمًاo
النسا ء 4 : 152
اور جو لوگ اﷲ اور اس کے (سب) رسولوں پر ایمان لائے اور ان (پیغمبروں) میں سے کسی کے درمیان (ایمان لانے میں) فرق نہ کیا تو عنقریب وہ انہیں ان کے اجر عطا فرمائے گا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo
شیطان نے بلا دلیل قرآن کا نام لے کر حدیث رسول کو لھوالحدیث کہہ کر، اپنے خبث و بغض کا اظہار کیا مگر اللہ پاک نے اپنے سچے کلام کے ذریعہ شیطان کی ناک کاٹ دی اور یہ اعلان کر دیا کہ خدا و مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان تفریق کرنے والے پکے کافر اور ذلت آمیز عذاب کے حقدار ہیں اور جو ان میں فرق نہ کریں، سب پر ایمان لائیں وہی اجر و ثواب کے حقدار ہیں۔ ان کے بہ تقاضائے بشریت کچھ گناہ ہوئے بھی تو اللہ پاک اپنی بندہ پروری اور اپنے محبوب کے صدقہ سے بخش دے گا۔
کیا جواب ِ جرم دو گے ؟ تم خدا کے سامنے
لوگو! سب کا ساتھ چھوڑ دو رسو ل اللہ کا دامن نہ چھوڑنا ورنہ قیامت کے دن ا پنے ہا تھ چباؤ گے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًاoيَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًاo لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًاoوَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًاo وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًاo
الفرقان، 25 : 27 تا 31
اور اس دن ہر ظالم (غصہ اور حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کھائے گا (اور) کہے گا : کاش! میں نے رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی معیّت میں (آکر ہدایت کا) راستہ اختیار کر لیا ہوتاo ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتاo بے شک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا، اور شیطان انسان کو (مصیبت کے وقت) بے یار و مدد گار چھوڑ دینے والا ہےo اور رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) عرض کریں گے : اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھاo‘‘
نبی کو اذیت دینے والے کیلئے وعید
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌo
التو بة 9 : 61
اور جو لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو (اپنی بد عقیدگی، بد گمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
نبی کا مذا ق اڑانے والے
قُلْ أَبِاللّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِؤُونَo
التوبة 9 : 65
فرما دیجئے : کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ مذاق کر رہے تھے۔‘‘
گستاخ رسول کافر ہوگئے
لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
التو بة 9 : 66
(اب) تم معذرت مت کرو، بے شک تم اپنے ایمان (کے اظہار) کے بعد کافر ہو گئے ہو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواذیت مت دو
وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اﷲِ
الا حزا ب 33 : 53
اور تمہارے لیے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو تکلیف پہنچاؤ۔‘‘
اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ستانے والے لعنتی، جہنمی
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًاo
الاحزاب، 33 : 57
بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے ر سو ل کو، ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخر ت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلت کا عذا ب تیا ر کر رکھا ہے۔‘‘
ظالموں کے خلاف ہر نبی کے لئے اللہ کی مدد کا وعدہ
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُواْ عَلَى مَا كُذِّبُواْ وَأُوذُواْ حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا وَلاَ مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللّهِ وَلَقدْ جَاءَكَ مِن نَّبَإِ الْمُرْسَلِينَo
الانعام، 6 : 34
اور تم سے پہلے ر سول جھٹلا ئے گئے تو انہو ں نے صبر کیا اس جھٹلانے اور ایذا ئیں پا نے پر، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد آئی اور اللہ کی با تیں بد لنے والا کو ئی نہیں۔‘‘
مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھو ڑ دو
وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًاoوَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًاo
المزمل، 73 : 10. 11
اور کا فروں کی باتوں پر صبر فرماؤ ! اور انہیں اچھی طرح چھو ڑ دو !اور مجھے اور ان جھٹلانے والے سرمایہ داروں کو چھوڑ دو اور انہیں تھوڑی مہلت دو۔‘‘
قرآن وحدیث دونوں پر ایمان لاؤ
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِo
الحشر 59 : 7
جو کچھ رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو
قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ
آل عمرا ن3 : 32
آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو۔ ‘‘
منافق رسول کی طر ف نہیں آتے
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاo
النسا ء 4 : 61
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیںo‘‘
منافقین کی یہ بڑی علامت ہے کہ قرآن کا نام لو تو دوڑ کر آئیں گے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلاؤ تو منہ موڑ لیتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ جب تک قرآن کریم کے ساتھ نبوی عملی تشریح و تفسیر ہوگی، یہ شیطان اس کا مفہوم بدل نہ سکیں گے اور من مانی شیطانی تحریفات و تاویلات نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی سنت حدیث کے خلاف شیطانی مشنری جذبہ سے سامراج کی مالی و سیاسی و فوجی حمایت سے زوردار پروپیگنڈا کرو تاکہ جہلاء اور لکھے پڑھے جاہل جنہیں باقی علوم تو شاید آتے ہو ں قرآن و سنت کی تعلیمات سے محروم ہیں اور احکام شرع کی حدود و قیود سے تنگ ہیں اور شرعی احکام سے آزادی چاہتے ہیں ان کو یہ گندی غذا دے کر ضمیرکی موت ماریں۔
حدیث پاک سے ہٹ کر قرآن کی تفسیر
حدیث پاک کی مدد کے بغیر صرف قرآن سے منکرین بتائیں کہ کلمہ طیبہ، طہارت و نجاست کے احکام، نماز پنجگانہ اور اس کے لئے اذان اور تعمیر مساجد کا روح پرور نظام، زکوۃ کا مفہوم، اس کے احکام، نصاب، شرح زکوۃ، مدت ادائیگی، حج، اس کا شرعی مفہوم، احرام، اس کے ارکان، اس کا ایک دن يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ (بڑے حج کا دن) (التوبة 9 : 3) کس مہینہ کی کس تا ریخ کو ہے؟ یا ’’اَلْحَجُّ اَشْهَرٌّ مَعْلُوْمَتْ‘‘ ’’حج کے کئی مہینے ہیں معلوم و مقرر‘‘۔ حج کے چند مقررہ مہینے کون سے ہیں؟ کتنے ہیں؟ اور ان میں جب چاہیں حج کر لیں ہو جائے گا؟ اور یہ چند مہینے ہیں تو ایک دن یوم الحج ا لاکبر کا مطلب کیا ہے؟ صر ف قرآن سے بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ حج اور حج اکبر میں کیا فرق ہے؟ قرآن سے وضاحت کریں اگر مفہوم ایک ہی ہے تو نام دو کیوں؟ بتاؤ لھو الحدیث، حدیث رسول ہے یا تمہاری تمام گندی باتیں؟ جو گمراہی و جہالت کا پلندہ ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منصب جو آپ کو اللہ پاک نے دیا ہے
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّهُ
النساء 4 : 105
(اے رسولِ گرامی!) بے شک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس (حق) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے۔‘‘
قرآن کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کریں گے
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَo
النحل 16 : 64
اور ہم نے آپ کی طرف کتاب نہیں اتاری مگر اس لیے کہ آپ ان پر وہ (اُمور) واضح کر دیں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں اور (اس لیے کہ یہ کتاب) ہدایت اور رحمت ہے اس قوم کے لیے جو ایمان لے آئی ہےo
قرآنی حقائق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واضح کریں گے
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَo
النحل 16 : 44
اور اے محبو ب!ہم نے تمہا ری طر ف یہ یا د دلا نے والی کتاب اتاری کہ آ پ لو گو ں سے کھو ل کر بیان کردیں جو ان کی طر ف اترا ‘‘۔
نبی کو تمام علوم عطا ہوئے
وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاo
النسآء 4 : 113
اوراللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔‘‘
اس لئے جس نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتاب اور حکمت نازل کی اور جو کچھ وہ نہ جانتے تھے وہ سب کچھ انہیں سکھا دیا اور ان کو قرآن کریم کی تفسیر و تشریح کا منصب سونپا وہی اس کی تشر یح و توضیح کر سکتے ہیں جس کو اللہ پاک نے یہ منصب نہیں دیا وہ نہ اس کام کا مجاز ہے نہ اہل۔
مثلا نماز قائم کرنا، زکو ۃ ادا کر نا، حج کرنا، روزہ کی تفصیل، کلمہ طیبہ، اذان کا حکم اور طریقہ، سود (ربوا) کی تعریف اور قسمیں، حرام و حلال کھانوں کی تفصیل، نکاح کا طریقہ وغیرہ صرف قرآن کریم سے کوئی مائی کا لعل ثابت نہیں کر سکتا۔ یہ تمام تفصیل و تفسیر صرف سنت و حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتی ہے۔ اگر سنت و حدیث رسول کو شرعی حجت و دلیل نہ مانا جائے تو بیک قلم تمام اسلامی احکام ختم ہو جائیں گے اور یہی ابلیس اور اس کے لاؤ لشکر کی سکیم ہے۔ آج دنیا میں کوئی ایسا دین یا مذہب و ازم موجود نہیں جو دور جدید کے مسائل سے بحث کرے اور زمانہ جدید کے سیاسی، معاشی یا سماجی مسائل کا قابل عمل علمی حل پیش کر سکے اس ضرورت کو پورا کر نے کے لئے پرانا نظام ملوکیت و سرمایہ داری اور نیا نظام سوشلزم، کمیونزم دونوں نے انسانی مسائل حل کرنے کا بیڑا اٹھایا مگر کروڑوں انسانوں کا خون بہا کر بھی مسائل کا قابل عمل حل نہ دے سکے۔ اب صرف اسلام کی باری ہے جو ان چیلنجز سے نبرد آزما ہو نے کے لئے موجود ہے، مگر شیطانی قوتیں شب و روز اس راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔ چونکہ اسلام میں مرکزی نقطہ ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، اس لئے ابلیسی قوتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات، آپ کے صفات اور آپ کے انقلاب کے خلاف صف آراء ہیں لیکن سن لیں کہ ان کی یہ سازشیں ہمیشہ ناکام ہوئیں اور ہمیشہ ناکام ہوں گی۔
ارشا د باری تعالیٰ ہے۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَo
التوبة 9 : 33
وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگےo‘‘
اس سے پہلی آیت کریمہ میں فرمایا
يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَo
الصف 61 : 8
یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کواپنے منہ(کی پھونکوں) سے بجھادیں، جب کہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریںo‘‘
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جا ئے گا
نیز
چراغے را کہ ایزد بر فرو زد
کسے کو تف زند ریشش بسو زد
جس چراغ کو اللہ روشن کرے، جو اسے پھونکیں مارے گا، اسکی داڑھی جل جائے گی یہ چراغ کبھی گل نہ ہو گا کہ اسے روشن کرنے والا زبر دست قوتو ں کا مالک ہے۔
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
یہ بجھائیں اسے، منظور بڑھانا تیرا
بخارا و سمرقند کی گھڑی ہوئی حدیثیں؟
مسلمانوں کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و عمل و تقریر سے ہی قرآن کریم کے احکام سمجھے جا سکتے ہیں جیسا کہ ہم نے قرآن کریم کے حوالہ سے تفصیل بیان کر دی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا بار بار حکم دیا ہے۔ اللہ کی اطاعت اس کے کلام قرآن کریم کے ذریعے سے ہوگی۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت حضور کی سنت و حدیث کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے، جیسے قرآن کا انکار اللہ کی اطاعت کا انکار ہے۔ اسی طرح سنت و حدیث کا انکار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا انکار ہے۔ اس بات کو ایک عام سوجھ بوجھ والا بھی سمجھنا چاہے تو سمجھ سکتا ہے۔
عربی و عجمی۔۔۔ منکرین حدیث کی ائمہ حدیث پر معاندانہ و جاہلانہ پھبتی
منکرین حدیث محدثین پر عجمی ہو نے کی بنا پر پھبتی کستے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اسلام میں درجہ و مرتبہ کی بنیاد عربی یا عجمی ہونا نہیں بلکہ تقویٰ ہے ایمان و عمل صالح ہے، اگر ایما ن و تقویٰ حبشہ کے بلال و نجاشی میں آ جائے، روم کے صہیب، ایران (فارس) کے سلمان میں آ جائے تو یہ عجمی مکہ کے ابوجہل، ابو لہب، امیہ، عتبہ، شیبہ، ولید اور مدینہ کے عبداللہ بن ابی جیسے سینکڑوں عربوں، قریشیوں، ہاشمیوں، امویوں سے افضل ہیں۔ اسلام میں ایمان و عمل صالح کی عزت و عظمت ہے، عربی و عجمی کی نہیں۔ گورے اور کالے کی نہیں۔ قوم و قبیلہ پہچان کا ذریعہ ہیں، عظمت و فضیلت کا نہیں۔ منکرین حدیث کو بخارا کے امام محمد بن اسماعیل بخاری (194۔256ھ) نیشاپوری خراسان کے امام مسلم بن الحجاج القشیری ( 204۔ 261ھ)، ماوراء النہر کے امام ابو عیسی ٰ محمد بن عیسی ٰالترمذی ولادت 209ھ وفات 279ھ، ابوداؤد سلیمان بن اشعث لجستانی ولادت 202ھ، وفات 275ھ، احمد بن شعیب نسائی ولادت 215ھ وفات 303ھ، ابو عبداللہ محمد بن یزید قزوینی ولادت 209ھ وفا ت 273ھ، امام عظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی ولادت 80ھ و فات 150ھ، امام عبدالرزاق بن ھمام ولادت 126ھ وفات 211ھ، امام مالک ابن انس بن مالک ولادت 93ھ، وفات 179ھ، امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم 182ھ، امام محمد بن حسن شیبانی ولادت 132ھ وفات 189ھ، امام احمد عمرو بن عبدالخالق بزارم 292ھ، امام محمد بن عمر واقدی م 207ھ، حافظ عبداللہ بن زبیر حمیدی م 219ھ، امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ م 235ھ پر اعتراض ہے کہ اکثر محدثین عجمی ہیں۔ لہذا تدوین حدیث عجمی سازش ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت کا دار و مدار تقویٰ، عمل و کردار پر ہے، عربی و عجمی ہونے پر نہیں۔ کوئی حبش سے، روم سے، مصر سے، ایران سے، عراق سے، شام سے آ کر مسلمان ہوگیا، اسلام اور اہل اسلام کی خدمت کے اعزاز سے مشرف ہو گیا اور کوئی مکہ و مدینہ میں رہ کر عربی، قریشی اور نہ جانے کیا کیا ہو کر بھی دولت ایمان سے محروم رہا۔ عربی کی عربیت اسے ایمان سے ہمکنار نہ کر سکی اور عجمی کی عجمیت اس کے خلوص و ایمان میں رکاوٹ نہ بن سکی، اللہ کی رحمت عربی و عجمی کا لحاظ کئے بغیر نوازتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سرکار کے حکم و اجازت سے خود صحابہ کرام لکھا کرتے تھے آنے والوں نے وہی سینوں اور صحیفوں میں جمع شدہ ذخیرہ مدون و مرتب کر کے یکجا کر دیا۔
چند دیگر غلط فہمیاں جو منظم طریقہ سے پھیلائی جاتی ہیں
منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حدیث لکھنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اپنی بات کے ثبوت کے طور پر یہ روایت پیش کرتے ہیں۔ صحیح مسلم کتاب العلم میں زید بن اسلم نے عطاء بن یسار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’میری احادیث نہ لکھو جس نے قرآن کے علاوہ کچھ لکھا ہو وہ اسے مٹا دے۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4 : 2298، رقم : 3004
یہاں منکرین حدیث نے دو غلطیاں کیں :
نمبر ا : کتاب العلم کا حوالہ دیا حالانکہ یہ روایت باب التثبت فی الحدیث و حکم کتابۃ العلم میں ہے۔
نمبر 2 : عربی کے اصل کلمات لکھے نہ پوری روایت نقل کی تاکہ اس منکر کا پول نہ کھلے۔ پوری حدیث پاک یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’لا تکتبوا عنی و من کتب عنی غير القرآن فليمحه وحدثوا عنی و لا حرج و من کذب علی متعمدا فليتبوا مقعده من النار‘
مسلم، الصحيح، 4 : 2298، رقم : 3004
’میری طرف سے کچھ نہ لکھو اور جس نے میری طرف سے قرآن کے علاوہ لکھا ہو، اسے مٹا دے اور میری طرف سے حدیث بیان کرو، حرج نہیں اور جو کوئی مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکا نہ جہنم میں بنالے‘
امام نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں۔
لکھنے سے منع اس شخص کو کیا گیا جسے اپنے حا فظہ پر مکمل اعتماد ہو اور لکھنے کی صورت میں ڈر ہو کہ کہیں لکھنے پر ہی اعتماد نہ کر لے اور جس کو حافظہ پر اعتماد نہ ہو اسے لکھنے کا حکم فرمایا جیسے فرمایا : ابو شاہ کو میر ی حدیث لکھ دو۔
اور حدیث صحیفہ علی۔
اور عمرو بن حزم کو فرائض، سنن اور دیات کے بارے میں احادیث لکھ کر دیں۔
اور حدیث کتاب الصدقۃ اور زکوٰۃ کے نصابات جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بحرین کا عامل بنا کر بھیجتے وقت لکھ کر دیئے۔
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد تھیں کہ میں لکھتا نہ تھا وہ لکھ لیا کرتے تھے، پس جب حدیث و قرآن کے خلط ملط ہونے کا خطرہ محسوس فرمایا، حدیث لکھنے سے منع فرما دیا جب یہ خطرہ تعلیم و تر بیت کے بعد ختم ہو گیا تو حدیث لکھنے کی اجازت ہی نہیں، حکم بھی دیدیا۔ وقت و حالات کے بدلنے سے بعض احکام بدل جاتے ہیں۔‘‘
نووی، شرح صحيح مسلم، 2 : 414
اختلاف تو جمع قرآن پر بھی ہوا
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے جنگ یمامہ (جو مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی) کے زمانہ میں بلا بھیجا، میں حاضر ہوا تو وہا ں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے آ کر کہا جنگ یمامہ میں قرآن پاک کے بہت سے حفاظ و قراء شہید ہو گئے ہیں مجھے ڈر ہے کہ مختلف علاقوں میں اگر قرآن کے حفاظ و قراء اسی طر ح شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم کا بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا میرے خیال میں آپ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ہم اور آپ کیسے کر سکتے ہیں؟
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بخدا یہ اچھا کام ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ برابر اپنی بات دہراتے رہے یہاں تک اللہ پاک نے میرا سینہ اس کے لیے کھول دیا اور میری رائے وہی ہوگئی جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا تم عقلمند نوجوان ہو، تمہا ری دیانت و امانت پر ہم الزام نہیں لگا سکتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وحی لکھا کرتے تھے، قرآن کریم کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرو۔ زید کہتے ہیں خدا کی قسم مجھے کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے نقل کر نیکی تکلیف دیتے تو جمع قرآن کے کام سے زیادہ میرے لئے بوجھل نہ ہو تا۔ کہتے ہیں میں نے کہا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا آپ کیوں کرتے ہیں؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا، خدا کی قسم یہ کام اچھا ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلسل مجھے سمجھاتے رہے، یہاں تک کہ اللہ پاک نے میرا سینہ بھی اس حقیقت کے لئے کھول دیا جس کے لئے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا، تو میں نے قرآن کریم کی تلاش شروع کر دی۔ میں نے کھجور کی چھال، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کیا یہا ں تک کہ سورۃ توبہ کا آخری حصہ مجھے خزیمہ انصا ری رضی اللہ عنہ کے پاس ملا، کسی اور کے پا س نہ ملا یعنی لقد جاء کم ر سول من انفسکم… آخر تک یہ نسخے ابو بکر صدیق کے پاس تھے یہا ں تک کہ اللہ پاک نے انہیں اپنے پاس بلا لیا، پھر زندگی بھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اور پھر وہ نسخے حضر ت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پا س ر ہے۔
بخاری، الصحيح، 4 : 1720، رقم : 4402
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
فإذا نهيتکم عن شیء فاجتنبوه و إذا أمرتکم بأمر فأتوامنه ما استطعتم
بخاری، الصحيح، 6 : 2658، رقم : 6858
جب میں تم کو کسی بات سے منع کروں اس سے بچو اور جب میں تم کو کسی بات کا حکم دوں اس پر جہاں تک ہو سکے عمل کرو۔‘‘
میرا نافرمان اللہ کا نافرمان ہے
فمن أطاع محمدا صلی الله عليه وآله وسلم فقد أطاع ﷲ ومن عصی محمدا صلی الله عليه وآله وسلم فقد عصی اﷲ ومحمد صلی الله عليه وآله وسلم فرق بين الناس‘
بخاری، الصحيح، 6 : 2655، الرقم : 6852
جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔‘‘
منکرین حدیث کے بارے میں پیشن گوئی
٭ حضر ت مقدام بن محمد معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ألا إنی اوتيت القرآن ومثله معه لا يوشک رجل شبعان علی أريکته يقول عليکم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه وان ما حرم رسول اﷲ کما حرم اﷲ ألا لا يحل لکم لحم الحمار الأهلی ولاکل ذي ناب من السبع ولا لقطة معاهد إلا أن يستغنی عنها صاحبها ومن نزل بقوم فعليهم أن يقروه فإن لم يقروه فله أن يعقبهم بمثل قراه
ابوداؤد، السنن، 4 : 200، رقم : 4604
’سن لو مجھے قرآن اور اس جیسا (تشر یحی) کلام اس کے ہمراہ دیا گیا ہے۔ خبردار ممکن ہے کہ کوئی پیٹ بھرا (دولت مند) اپنے تخت پر بیٹھا کہے، لوگو! اس قرآن پر صرف ایمان رکھو۔ اس میں جو حلال پاؤ اسے حلال مانو اور اس میں جو حرام پاؤ اسے حرام مانو، حالانکہ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حرام کہا ہوا ویسا ہی حرام ہے جیسے اللہ کا حرام کردہ۔ سنو! تمہارے لئے پالتو گدھا حلال نہیں نہ شکاری درندہ، نہ کسی معاہدہ وا لے غیرمسلم کا گرا پڑا مال، ہاں مالک کو اس کی ضرورت ہی نہ ہو تو بات دوسری ہے، جب معاہد غیر مسلم کا گرا پڑا مال اٹھانا جائز نہیں تو مسلمان کا مال تو بطریق اولی جائز نہیں اور جو کسی قوم کے پاس ٹھہرے اس قوم پر اس کی مہمان نوازی لازم ہے، اگر انہوں نے اس کی مہمان نوازی نہیں کی تو اسے ان سے بقدر ضرورت زبردستی ضروریات لینے کا حق ہے۔‘
٭حضر ت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا ’’ تم میں سے کوئی اپنے تکیہ پر ٹیک لگائے یہ خیال کرتا ہے کہ
’أن اﷲ لم يحرم شيئا إلا ما فی هذا القرآن‘
’اللہ تعالیٰ نے صرف وہی حرام کیا ہے جو قرآن میں ہے‘
’ألا وإنی واﷲ قد عظت وأمرت ونهيت عن أشياء إنها لمثل القرآن أو أکثر‘
سن لو خدا کی قسم میں نے حکم دیا ہے نصیحت کی ہے۔ بہت سی چیزوں سے منع کیا ہے، جن کی تعداد قرآن کریم جتنی بلکہ زیادہ ہے۔
ابوداؤد، السنن، 3 : 170، رقم : 3050
٭ خدا کی طر ح میر ے احکام کو تسلیم کرنا اور میرے حرام کئے ہوئے کو حرام ماننا بھی ہر مسلمان پر لازم ہے
’من أحب سنتی فقد أحبنی ومن أحبنی کا ن معی فی الجنة‘
عبدالرحمن مبارکپوری، تحفة الأحوذی، 7 : 371
’ جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا‘‘۔
٭ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔
امام مالک، المؤطا، 2 : 899، رقم : 1594
حدیث پاک کی تحریرات
’بخدا ہمارے پاس پڑھنے کے لئے صرف اللہ کی کتاب (قرآن) اور یہ صحیفہ ہے۔ جب صحیفہ کھولا تو اس میں اونٹوں کی عمریں لکھی تھیں یعنی نصاب زکوٰۃ، اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ مدینہ فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس میں کوئی فتنہ برپا کیا اس پر اللہ کی لعنت اور فرشتوں اور انسانوں، سب کی، اللہ تعالیٰ اس سے فرض و نفل قبول نہیں کرے گا۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ مسلمانوں کا ذمہ (معاہدہ) ایک ہے، نچلے سے نچلے درجہ کا مسلمان بھی اس کو پورا کرنے کے لئے کوشاں رہے گا، جس نے (معاہدہ کی خلاف ورزی کر کے) مسلمان کو ذلیل کیا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور لوگوں، سب کی لعنت۔ اللہ تعالیٰ اس کے فرض و نفل کو قبول نہیں کرے گا۔ اس میں یہ بھی تھا جس نے اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ کر کسی قوم سے بغیر رشتہ نسبی کے رشتہ نسبی جوڑا (مال و شہرت کی خاطر) اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت، اللہ پاک اس کے فرض و نفل قبول نہیں کرے گا۔‘‘
بخا ر ی، الصحيح، 2 : 1584
خطبہ فتح مکہ
فتح مکہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طویل خطبہ دیا، یمن کے ایک صاحب ابو شاہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لئے یہ لکھ دیجئے۔ آپ نے حکم دیا
’اکتبوا لأبی شاه‘
ابوشاہ کے لئے اسے لکھ دو۔
بخاري، الصحيح، 6 : 2522، رقم : 6486
٭ حضر ت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنر ابو بکر بن حزم کو یہ فرمان لکھ کر بھیجا۔
’أنظر ما کان من حديث رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فاکتبه فانی خفت دروس العلم و ذهاب العلماء ولا يقبل إلا حديث النبی صلی الله عليه وآله وسلم ولتفشو العلم ولتجلسوا حتی يعلم من لا يعلم فان العلم لا يهلک حتی يکون سرا‘
بخاری، الصحيح، 1 : 49، رقم : 34
دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام حدیثیں لکھ لو! مجھے علم کے مٹنے اور علماء کے (دنیا سے) چلے جانے کا ڈر ہے اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث قبول کی جائے، علم کو خوب پھیلائیں اور اہل علم بیٹھیں تا کہ بے علموں کو تعلیم دیں، علم صرف اس وقت تباہ ہوتا ہے جب راز بن جائے‘‘۔
حدیثیں لکھی جاتی تھیں
٭ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے سوا مجھ سے زیادہ کسی کے پاس حدیثیں نہیں۔
’فإنه کان يکتب ولااکتب‘
وہ لکھ لیا کر تے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 54، رقم : 113
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو سنتا یاد رکھنے کی نیت سے لکھ لیتا۔ بعض لوگوں نے یہ کہہ کر مجھے منع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہوئی ہر بات لکھ لیتے ہو حالانکہ آپ انسان ہیں غصہ اور رضا کی حالت میں بات کرتے ہیں، میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کر دی، آپ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طر ف اشارہ کر کے فرمایا۔ ’أکتب‘ ’لکھا کر‘ ’فوالذی نفسی بيده ما يخرج منه إلا حق‘ ’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس منہ سے صرف حق نکل سکتا ہے‘‘۔
ابوداؤد، السنن، 3 : 318، رقم : 3646
کتابت حدیث
٭رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
قيد و العلم بالکتاب.
’’علم کو لکھ کر قابو کر لو‘‘۔
حاکم، المستدرک، 1 : 188، رقم : 360
٭ حضر ت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے دو عادتیں زندہ رہنے کا حوصلہ اور شوق دیتی ہیں
الصادقۃ
الوھط
الصادقۃ وہ بیاضی (رجسڑ) صحیفہ ہے جس میں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثیں لکھی ہیں۔
الوھط وہ زمین جسے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رفاہ عامہ کے لئے و قف کیا تھا، حضرت عبداللہ بن عمرو العاص رضی اللہ عنہ اس کے منتظم تھے۔
ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
٭ ر بیع بن سعد کہتے ہیں میں نے جابر رضی اللہ عنہ کو ابن سابط کے پاس تختیو ں پر حدیث پاک لکھتے دیکھا۔
ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
٭ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’علم کو قید تحریر میں لاؤ۔‘‘
ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
٭ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے ایک کتا ب دکھا کر حلفاً کہا کہ یہ (احادیث) میرے والد نے اپنے ہا تھ سے لکھی تھی۔
ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
٭ بشیر بن نھیک (شاگرد رشید ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو سنتا لکھ لیتا جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تو اپنی کتاب ان کو پیش کی اور عرض کی یہ ہے مجموعہ آپ سے سنی ہوئی احادیث کا، انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
٭ ابو قلابہ کہتے ہیں مجھے لکھ لینا زیادہ پسند ہے کہ بھول نہ جاؤں۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
٭ عبد اللہ بن خنیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے لوگوں کو براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کانوں کے قلم پکڑے حدیثیں لکھتے دیکھا۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
٭ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیثیں لکھنے کی اجا زت دی۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بیٹو ں سے فرمایا کرتے علم کو لکھ کر قابو کرو۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
٭ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ ’’علم کو قید کرنا کیا ہے؟ فرمایا لکھنا‘‘۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
٭ پہلا شخص جس نے علم حدیث کو مدون کیا اور لکھا ابن شہاب زہری میں۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
٭ابو الزناد کہتے ہیں ہم حلال و حرام سے متعلق حدیثیں لکھا کر تے تھے اور ابن شہا ب زہری جو حدیث سنتے لکھ لیتے، جب ان کی احتیاج ہوئی تو مجھے پتہ چلا کہ وہی سب سے بڑے عا لم تھے۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
٭ معاویہ بن قرہ کہتے ہیں جو علم حدیث نہ لکھے اسے عالم نہ سمجھو۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
٭ حسن بن عمرو کہتے ہیں میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک حدیث بیان کی، انہوں نے اس کا انکار کیا۔ میں نے کہا جناب میں نے یہ حدیث آ پ سے سنی ہے، فرمایا اگر مجھ سے سنی ہے تو میرے پاس لکھی ہوگی۔ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کی بہت سی تحریریں دکھائیں ان میں وہ حدیث مل گئی۔ فرمانے لگے میں نے تجھے کہا تھا کہ اگر میں نے تجھے یہ حدیث سنائی ہے تو میرے پاس لکھی ہو گی۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 89
٭ عر وہ بن زبیر (سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا کے بھا نجے) کی کتابیں واقعہ حرہ میں جل گئیں، کہا کر تے تھے کاش میرا اہل و مال جل جاتا کتب حدیث نہ جلتیں۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 90
٭ سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں تین قسم کی حدیثیں لکھنا چاہتا ہوں۔
حدیث لکھتا ہوں اور اسے دین بناتا ہوں
ایسے شخص سے حدیث لکھتا ہوں جس میں توقف کرتا ہوں، نہ رد کرتا ہوں، نہ دین بناتا ہوں۔
کمزور راوی کی حدیث پہچاننا چاہتا ہوں مگر اسے اہمیت نہیں دیتا۔ ان روایات کا علم بھی حاصل کرتا جنہیں قبول کرتا ہوں جن سے ان کا علم حاصل کرتا ہوں جو ناقابل قبول ہیں تا کہ صحیح و غلط میں پرکھ ہو۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 91
٭ امام ابن شہاب زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے ہمیں تمام احادیث و سنن جمع کر نے کا حکم دیا، ہم نے دفتر دفتر مجموعے تیار کئے، انہوں نے اپنی تمام سلطنت میں ایک ایک نسخہ بھیج دیا۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 92
٭ صالح بن کسیان کہتے ہیں میں اور ابن شہاب زہری حصول علم میں مصروف تھے۔ ہمارا سنن و احادیث لکھنے پر اتفاق ہو گیا، پس ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام احادیث لکھ لیں پھر امام زہری نے کہا ہمارے ساتھ صحابہ کرام کی بھی تمام احادیث و آثار لکھیں، میں نے کہا نہیں، وہ سنت میں شامل نہیں، امام زہری نے کہا وہ سنت میں شامل ہیں چنانچہ انہوں نے لکھ لیں اور میں نے نہ لکھیں وہ کامیاب رہے میں نے عمر ضائع کی۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 92
٭ امام زہری کہتے ہیں، بادشاہوں نے مجھ سے حدیث رسول لکھنے کا مطالبہ کیا تو میں نے انہیں کتابیں لکھ دیں پھر مجھے اللہ تعالی ٰ سے شرم آتی کہ بادشاہوں کے لئے لکھوں اور دوسروں کے لئے نہ لکھو ں؟
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 92
٭ خلیفہ عبدالملک کے بیٹے شھاب نے امام زہری سے حدیث لکھنے کے لئے دو کاتب مقرر کئے جنہوں نے ان کے ہاں قیام کیا اور سال بھر احادیث لکھتے رہے۔ المبرد نے خلیل بن احمد (امام النحو) کا یہ قول نقل کیا ہے میں نے جو سنا لکھ لیا اور جو لکھا اسے یاد کر لیا اور جو یاد کر لیا اس نے مجھے فائدہ پہنچایا۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 93
حدیث لکھنے سے منع کیو ں فرمایا؟
یاد رکھو! کسی صحابی یا بعد کے امام و بزرگ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث و سنت کی اہمیت و حجیت اور اصل شریعت ہونے کا کبھی انکار کیا نہ شک۔ جیسے اطيعواﷲ کا مطلب ہے قرآن پر ایما ن، اسی طرح اطیعو الرسول کا مطلب ہے حدیث و سنت رسول پر ایمان رکھنا۔ دونوں کو احکام شرع کے اصل اصول ماننا جیسے اطیعو اللہ کا انکار، قرآن کا انکار، اسی طرح سنت و حدیث رسول کا انکار اطیعوالرسول کا انکار ہے اور ہر انکار مستقل کفر ہے۔ ہا ں ایک خاص وقت کے لئے خاص حکمت کے تحت حدیث لکھنے سے منع کیا گیا، جیسے قرآن کو کتا بی شکل میں مدون و مرتب کرنے میں اکابر صحابہ کا اختلاف ہوا، ہر نئے کام میں تردد و اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جو بحث و تمحیص اور مخلصانہ افہام و تفہیم سے زائل ہو جاتاہے۔
٭ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا گیا، کیا اچھا ہو کہ آپ ہمیں حدیثیں لکھوا دیا کر یں، انہوں نے فرمایا ہم تمہیں لکھواتے نہیں، ہم سے حاصل کرو جیسے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیں۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 76
٭ ابو نضرہ کہتے ہیں میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا، ہم آپ سے جو حدیثیں سنتے ہیں، ان کو لکھ نہ لیا کر یں؟ انہو ں نے کہا تم حدیثوں کو مصاحف بنانا چاہتے ہو؟ تمہارے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو حدیثیں سناتے اور ہم انہیں زبانی یاد کر لیا کر تے تھے۔ تم بھی اسی طر ح یاد کرو جیسے ہم زبانی یاد کرتے تھے۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 76
٭ امام مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حدیثیں یا ان کی کتابیں لکھنے کا ارادہ کیا، پھر فرمایا کتاب اللہ کے ساتھ کوئی کتاب تحریر نہیں ہوسکتی۔ امام مالک نے کہا ابن شہاب زہری کے پاس ایک ایک کتاب کے سوا جس میں ان کی قوم کا نسب لکھا تھا کوئی کتاب نہ تھی۔ لوگوں میں لکھنے کا نہیں، حفظ کرنے کا رواج تھا، جو لکھتا تھا وہ حفظ کرنے کی نیت سے لکھتا تھا جب حفظ کر لیتا تحریر مٹا دیتا۔
ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 77
نہ لکھنے کی وجوہات
علامہ ابن عبد البر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کے ایک باب میں کتابت حدیث کے حق میں اور دوسرے میں اس کے خلاف متعدد روایات و اقوال جمع کر دیئے ہیں۔ ہم نے دونوں کی ایک جھلک آ پ کے سامنے پیش کر دی تا کہ مثبت و منفی دونو ں پہلو سامنے آ جائیں دونوں کا خلاصہ یہ ہے :
٭ ہر نئے کام میں پہلے ہچکچاہٹ ہوتی ہے جیسے کتابی صورت میں جمع قرآن کے سوال پر ہوئی۔
٭ عربوں کو اپنے حافظہ پر بڑا اعتماد تھا فصیح و بلیغ خطبات، سینکڑوں اشعار کے قصائد، مراثی، غزلیات اور نسبت عام لوگوں کو زبانی یاد ہوتے تھے۔ لکھنے کو ذہنی کمزوری اور حفظ کو بجا طور پر کمال سمجھتے تھے۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو دین کا مرکز و محور مانتے تھے۔ آ پ کی ہربات کو حق سمجھ کر زندگی کا عملی لائحہ عمل بنا لیتے تھے۔ آ پ کے دامن کرم سے وابستگی کو دین اور اس میں کمی کو ایمان سے محرومی سمجھتے تھے۔
٭ دور اول میں جس طرح ماننے والوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ منکرین، حاسدین اور منافقین کی شیطانی سازشیں بھی زوروں پر تھیں۔ اپنے رسول سے مسلمانوں کی بے مثال عقیدت و وابستگی نے منکرین کے دلوں میں آگ لگا دی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ حق و صداقت کا یہ سورج کبھی غروب نہ ہوگا، اس لئے ان کی ہمیشہ یہ کوشش بلکہ حسرت رہی کہ قرآن کریم کو ختم کر دیں یا پہلی کتابوں کی طرح اسے منحرف کر دیں یا کم سے کم یہ ممکن نہیں تو اس لافانی کتاب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تفسیر اور عملی زندگی سے الگ کر دیں تا کہ اس کی انقلابی تعلیم و تربیت سے دنیا کو محروم کیا جائے۔
کتاب اللہ کا متن لیکر من مانی تفسیر کر کے اسلام کے رخ روشن پر شیطانی تلبیس کے پردے ڈال دیں اس مقصد کے لئے ایک طرف قرآن کریم کے متن کے خلاف کوششیں ہوئیں جو اپنی موت آپ مر گئیں، پھر حدیث و سنن کے خلاف پروپیگینڈا کیا گیا تا کہ نبوی تشریح سے امت کو محروم کیا جائے اور دین کا پورا نقشہ بدل دیا جائے پھر قرآن میں تحریف کے لئے صحیح احادیث کے مقابل میں جعلی روایات کو گھڑا اور پھیلایا گیا، مگر اس دین کا محافظ اس کی حفاظت کرتا رہا۔ جہاں اصل چیز ہوتی ہے وہیں جعلی اور نقلی مال بھی آ جاتا ہے اور یہ سب کچھ اسلام کے ساتھ روز اول سے ہوتا رہا۔ چنانچہ جہاں سنت و حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر امت کو کار بند کیا وہیں من گھڑت اور جعلی روایا ت ہی نہیں، آیا ت پر بھی نظر رکھی۔ مسلیمہ کذاب سے لیکر مر زا قادیانی تک نبوت کے ہر جھوٹے دعو یدار نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے حق میں من گھڑت وحی اور آیتیں بنائیں اور گھڑیں۔ لہٰذا خدشہ تھا کہ صحیح و غلط، خلط ملط نہ ہو جائے۔ متن قرآن میں کمی بیشی نہ ہو جائے اسی کے پیش نظر احادیث کے لکھنے، نہ لکھنے میں اختلا ف ہوا۔ حدیث پاک کی حجیت میں تو کبھی کسی مسلمان کو اختلاف ہوا ہی نہیں اور جو اختلاف کرے وہ مسلما ن نہیں۔
اس مقصد کے لئے احادیث کی جمع و تدوین بھی ضروری تھی اور ملاوٹ سے اسے پاک رکھنا بھی ضروری تھا۔ لہٰذا جو علم و تقویٰ میں معروف اور محتاط تھے ان کیلئے حفظ و کتابت حدیث کا راستہ کھول دیا اور جو اس درجہ و معیار کے نہ تھے ان کو اس کام سے منع کر دیا گیا، اس لئے اجازت و ممانعت دونوں ساتھ ساتھ ہیں جس کام سے اطمینان ہو اس کی حوصلہ افزائی فرمائی اور جو کام غیر تسلی بخش پایا اس کی ممانعت فرما دی یہ صرف حدیث کی بات نہیں، قرآن کریم کے وہ تمام نسخے جو غیر معیاری تھے اور خدشہ تھا کہ آئندہ کسی وقت باعث فتنہ ہو نگے، ان کو بھی جلایا گیا اور آج بھی بالفرض غفلت و کوتاہی یا عناد کی بنا پر کوئی قرآن پاک کا تحریف شدہ نسخہ شائع کرے، اسے مسلمان حکومت ضبط کرے گی اور متعلقہ شخص یا ادارہ کو اس جرم کی سزا ہوگی۔ اللہ کی کروڑہا رحمتیں ہوں ان نفوس قدسیہ پر جنہوں نے صحیح وغلط کی تحقیق و تمیز کی۔ دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کیا اور صحیح احادیث کے مجموعے تیار کر کے امت بلکہ انسانیت کی ہدایت کا سامان کیا۔ اللہ تعالیٰ منکرین حدیث و قرآن کو ہدایت دے اور خلق خدا کو ان کے شر سے بچائے۔
کرنسی کی مثال
16 دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ ہوا، یعنی دشمن کی سازش اور اپنوں کی عاقبت نااندیشی، حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ہوس حکمرانی و عیاشی، نا اہلی کے نتیجہ میں مملکت خداد پاکستان کا مشرقی بازو کٹ کر مرکز سے الگ کر دیا اور اسے بنگلہ دیش کا نام دیدیاگیا۔ وہاں کے بینکوں، کمپنیوں، صنعتی و تجارتی اداروں اور نجی ملکیت میں پاکستانی کرنسی کی صورت میں اربو ں کھربوں روپے اور دیگر اثاثہ جات تھے۔ دشمن کسی ذریعہ سے اس قومی دولت کو غصب کرنا چاہتا تھا تا کہ ہماری معیشت تباہ ہو اور اس کی معیشت مستحکم۔ حکومت پاکستان نے فوری طور پر بڑی مالیت کے نوٹ منسوخ کر دیئے اور جن لوگوں کے پاس تھے ان کو چند گھنٹو ں کے مختصر وقفہ میں اپنے قریب ترین بینک میں جمع کروانے کا حکم دیا۔ اس مثال کو سامنے رکھیں غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملنے والی کتاب قرآن مجید۔۔۔ اس کے چیلنج اور انقلاب مختصر ترین وقت میں۔۔۔ ساتھ ساتھ اس کی حفاظت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی، قولی و تقریری تشریح و تفسیر۔۔۔ اسوہ حسنہ کا حسین ماڈل۔۔۔ انسانوں کے انبوہ عظیم کی تعلیم و تربیت کر کے اسے امت مسلمہ کے نام سے دنیا کے سامنے پیش کرنا۔۔۔ بقو ل علامہ اقبال
ماند شہادر حراء خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
غار حرا کے خلوت گزیں نبی نے قو م، آئین اور سلطنت تینوں کو دنیا کے سامنے بہترین ماڈل کی صورت میں پیش کر دیا جس نے چند سالوں کے قلیل عرصہ میں دنیا کی دو بڑی طاقتوں قیصر و کسریٰ کے ظلم و استبداد کا مضبوط محل مسمار کر کے ایوان عدل و مساوات تعمیر کر دیا۔ باطل کی ان ناکامیوں اور اہل حق کی مسلسل کامیابیوں سے شیطانی قوتیں لرزہ براندام تھیں اور میدان کارزار اور کارگاہ فکر و عمل میں شکست کھا کر اس دین کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئیں۔ قرآن کے متن میں کمی بیشی کی حرکتیں کیں۔۔۔ جعلی وحی سے دو نمبر آیتیں گھڑی گئیں۔۔۔ جھوٹی و جعلی حدیثیں گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کی گئیں تا کہ دین میں تحریف و رخنہ اندا زی ہو۔۔۔ حقیقتیں مسخ ہوں۔۔۔ امت میں گمراہی و انتشار آئے۔۔۔ اور حق و صداقت کے بڑھتے ہوئے قدم رک جائیں۔۔۔ ظلم دنیا سے ناپید نہ ہو۔۔۔
اس جعلی سازش کی مکمل تردیدی وضاحت ضروری تھی، اس لئے صحابہ کرام اور خیرخواہان ملت نے ایسی روایات کے خلاف صرف زبانی و تحریری جہاد نہیں کیا بلکہ ان محدثات و بدعات کے خلاف بوقت ضرورت طاقت بھی استعمال کی اور گمراہی کے ان سر چشموں کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔ جس طرح کرنسی نوٹوں اور دوسری مالی دستاویزات کی تنسیخ اس لئے نہیں کی جاتی کہ اس کی قانونی حیثیت نہ تھی۔ قانونی حیثیت بھی تھی کوئی جھوٹ بھی نہ تھا اس کی اہمیت کا انکار بھی نہ تھا بلکہ دشمن کی بھیانک سازش کو ناکام کرنا تھا۔ اس لئے صحیح قانونی نوٹ بھی منسوخ کر دیئے گئے۔ اسی طرح دشمن کی سازشوں سے امت کو بچانے کے لئے اور جعلی روایات کے سدباب کے لئے مختلف اوقات میں مسلمانوں نے جو مناسب سمجھا اس پر عمل کیا اور جس سے خطرے کا اندیشہ ہوا اس کی ممانعت کر دی۔ اس سے حدیث پاک کی اہمیت واضح ہوئی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی
اسلام قبول کرنے والے شخص کے قبول اسلام سے پہلے کے اعمال کے متعلق کیا حکم ہے؟
جو شخص کفر و شرک چھوڑ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے حالتِ کفر میں سرزد ہونے والے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ علامہ یحییٰ بن شرف نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں :
’’قرآنِ مجید اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ جو شخص مسلمان ہو گیا اس کے زمانۂ کفر کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘
نووی، شرح صحيح مسلم، 2 : 136
اس کی وضاحت اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
’’اے عمرو! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام پچھلے تمام گناہ مٹا دیتا ہے؟‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب کون الاسلام يهدم ما قبله، 1 : 112، رقم : 121
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکین میں سے بعض لوگ کثرت سے بدکاری و شراب نوشی اور دیگر کبیرہ گناہوں میں ملوث تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : آپ ہمیں جس دین کی دعوت دیتے ہیں وہ بہترین دین ہے لیکن کیا اسلام قبول کرنے سے ہمارے (سابقہ) گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا؟ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُO
’’آپ فرما دیجئے : اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
الزمر، 39 : 53
مذکورہ حدیث میں صراحت کے ساتھ قبولِ اسلام سے پہلے کیے گئے برے اعمال کی معافی کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث شریف حالتِ کفر میں کیے گئے نیک اعمال کی وضاحت یوں کرتی ہے :
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : کیا مجھے ان نیکیوں پر اجر ملے گا جو میں نے زمانۂ جاہلیت میں کی تھیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’زمانہ جاہلیت میں جن نیکیوں کی تم نے عادت ڈالی تھی، وہ عادت اسلام میں بھی باقی رہے گی۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان حکم عمل الکافر إذا أسلم بعده، 1 : 113، رقم : 123
ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے اسی سوال پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’سابقہ نیکیوں ہی کی بدولت تم کو اسلام قبول کرنے کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الزکة، باب من تصدق فی الشرک ثم اسلم، 2 : 521، رقم : 1369
2. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان حکم عمل الکافر اذا أسلم بعده، 1 : 114، رقم : 123
ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص ظاہراً اور باطناً مسلمان ہو گیا اس کے زمانۂ کفر کے برے کاموں پر مواخذہ نہیں ہو گا اور سابقہ نیک کاموں کی بدولت وہ آئندہ زندگی میں بھی اچھے اعمال جاری رکھے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
کیا کلمہ طیبہ پڑھ لینا ہی نجات کے لئے کافی ہے؟
کلمہ طیبہ پڑھنے سے انسان دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور اسے ایمان کی دولت میسر آ جاتی ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے : آپ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو رہے تھے۔ پس میں تیسری بار حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو چکے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہے، اسی اعتقاد پر اس کا خاتمہ ہو جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب من مات لا يشرک باﷲ شيئًا دخل الجنة و من مات مشرکا دخل النار، 1 : 95، رقم : 94
لیکن اس حدیث میں کلمہ طیبہ پڑھنے سے مراد احوال و اعمال کی اصلاح کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد احوال و اعمال کی اصلاح کو نظرانداز کرنا اﷲ کی گرفت کا باعث بنتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًاo
’’جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگارo‘‘
النساء، 4 : 123
اگر کسی کلمہ گو شخص نے اپنے گناہوں پر توبہ کی اور اس کی توبہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوگئی تو وہ کلمہ گو شخص جنت میں جائے گا۔ یا اﷲ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو پھر وہ کلمہ گو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
ختم نبوت سے کیا مُراد ہے؟
ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی سو سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
ارشادِ خداوندی ہے :
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo
’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہےo‘‘
الاحزاب، 33 : 40
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب رسالت پر۔
قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارۃً یا کنایتاً عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلہءِ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح لفظوں میں اعلان فرمایا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ.
’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرويا، 4 : 163، باب : ذهبت النبوة، رقم : 2272
اس حدیث پاک سے ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ قبر پر آذان دیتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس کا کوئی جائز ہونے کا ثبوت ملتا ہے؟
قبر پر اذان دینا قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی قرآن و سنت میں اس کے منع کی کوئی دلیل ہے۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں پانچ نمازوں کے علاوہ جن امور کے لیے اذان سنت یا مستحب ہے درج ذیل ہیں:
يسن الأذان لغير الصلاة، کما فی أذن المولود، و المهموم، و المصروع، و الغضبان، و من ساء خلقه من انسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند انزال الميت القبر قياساً علی أول خروجه للدنيا… وعند تغوّل الغيلان : أی عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه… لمن ضل الطريق فی أرض قفر : أی خالية من الناس. وقال الملا علی فی شرح المشکاة قالوا : يسن للمهموم أن يأمر غيره أن يؤذن فی أذنه فانه يزيل الهم، کذا عن علی رضی اﷲ عنه.
’’نماز کے علاوہ بھی اذان مسنون ہے جیسا کہ نو مولود بچے کے کان میں، یونہی مغموم اور دورہ پڑنے والے پر، غصہ والے پر، بد اخلاق پر انسان ہو یا جانور، جب دشمن کے لشکر کا آمنا سامنا ہو جائے اور جلنے والے کے پاس اور کہا گیا ہے میت کو قبر میں اتارتے وقت قیاس کرتے ہوئے اس کے دنیا میں آنے پر۔۔۔ یونہی چڑیلوں (جنات، بھوت) کی سرکشی کے وقت۔ اس کے بارے میں حدیث صحیح موجود ہے۔۔۔ یونہی جو کوئی ویران جگہ میں راہ بھول جائے۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے مرقات (شرح مشکوۃ) میں فرمایا مغموم و پریشان کیلئے سنت یہ کہ کسی دوسرے کو اپنے کان میں اذان کا حکم دے اس سے غم دور ہوگا، یونہی حضرت علی کرم اﷲ وجہ سے منقول ہے۔‘‘
ابن عابدين، ردالمحتار، 1: 385، دار الفکر للطباعة والنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه
لہٰذا میت کو قبر میں اتارتے وقت قبر پر اذان دینا مستحب ہے، جائز ہے اور کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے جو ناجائز کہے وہ دلیل پیش کرے۔ فقط۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی
توبہ کی شرائط، اہمیت اور فضلت قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کر دیں؟
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشادات باری تعالی ہیں:
وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًاo
اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھاo
الفرقان، 25 : 71
إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ.
بیشک اﷲ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
البقرۃ، 2 : 222
وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّهَ يَجِدِ اللّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا.
اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان پائے گا۔
النساء، 4 : 110
فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ.
سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔
ھود، 11 : 61
مذکورہ بالا کے علاوہ بہت سے مقامات ہیں، اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو توبہ کی طرف رغبت دلائی ہے اور توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ لیکن توبہ سچے دل سے ہونی چاہیے اور پکی ہونی چاہیے تاکہ دوبارہ بندہ پھر اسی گندگی میں نہ گر جائے جس سے اٹھ کر اس نے صفائی کی تھی۔
اسی حوالہ سے چند احادیث بھی درج ذیل ہیں:
عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُودٍ حَدِیثَیْنِ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ یَرَی ذُنُوبَهُ کَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ یَخَافُ أَنْ یَقَعَ عَلَیْهِ وَإِنَّ الْفَاجِرَ یَرَی ذُنُوبَهُ کَذُبَابٍ مَرَّ عَلَی أَنْفِهِ فَقَالَ بِهِ هَکَذَا قَالَ أَبُو شِهَابٍ بِیَدِهِ فَوْقَ أَنْفِهِ ثُمَّ قَالَ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ رَجُلٍ نَزَلَ مَنْزِلًا وَبِهِ مَهْلَکَةٌ وَمَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَیْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَوَضَعَ رَهْسَهُ فَنَامَ نَوْمَةً فَاسْتَیْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ رَاحِلَتُهُ حَتَّی إِذَا اشْتَدَّ عَلَیْهِ الْحَرُّ وَالْعَطَشُ أَوْ مَا شَاءَ اﷲُ قَالَ أَرْجِعُ إِلَی مَکَانِي فَرَجَعَ فَنَامَ نَوْمَةً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَإِذَا رَاحِلَتُهُ عِنْدَهُ تَابَعَهُ أَبُو عَوَانَةَ وَجَرِیرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ سَمِعْتُ الْحَارِثَ وَقَالَ شُعْبَةُ وَأَبُو مُسْلِمٍ اسْمُهُ عُبَیْدُ اﷲِ کُوفِيٌّ قَائِدُ الْأَعْمَشِ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِیمَ التَّیْمِيِّ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ وَقَالَ أَبُو مُعَاوِیَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عُمَارَةَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اﷲِ وَعَنْ إِبْرَاهِیمَ التَّیْمِيِّ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ.
’’حارث بن سوید کا بیان ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہم سے دو حدیثیں بیان فرمائیں، ایک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی اور دوسرا اُن کا اپنا قول ہے۔ اپنا قول یہ بیان فرمایا کہ مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کوئی آدمی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور وہ ڈرے کہ کہیں یہ اوپر نہ آ گرے جبکہ فاسق و فاجر آدمی اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے ناک کے اوپر سے مکھی گزرتی ہوئی چلی گئی اور فرمایا کہ اس طرح ابو شہاب نے اپنے ہاتھ کے ذریعے ناک کے اوپر سے گزرنا بتایا۔ پھر حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی پر خطر منزل پر ٹھہرے اور اس کے پاس سواری ہو جس کے اوپر کھانے پینے کی چیزیں ہوں۔ چنانچہ وہ اپنا سر رکھ کر سو جاتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو اس کی سواری کہیں جا چکی ہوتی ہے پھر گرمی اور پیاس کی شدت اُسے تڑپاتی ہے یا جو اللہ نے چاہا۔ اس نے کہا کہ میں اپنی جگہ کی طرف لوٹ جاتا ہوں۔ چنانچہ وہ واپس لوٹتا اور سو جاتا ہے۔ جب (بیدار ہو کر) سر اٹھاتا ہے تو اس کی سواری پاس ہوتی ہے۔ اسی طرح ابو عوانہ اور جریر نے اعمش سے روایت کی۔ شعبہ، ابو مسلم، اعمش، ابراہیم، تیمی نے حارث بن سوید سے روایت کی۔ ابو معاویہ، اعمش، عمارہ، اسود نے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے اس کو روایت کیا۔ ابراہیم تیمی، حارث بن سوید نے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے روایت کی‘‘۔
بخاري، الصحیح، 5 : 2324، رقم : 5949، دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت
عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم اﷲُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِکُمْ سَقَطَ عَلَی بَعِیرِهِ وَقَدْ أَضَلَّهُ فِي أَرْضِ فَلَاةٍ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے تم میں سے کسی کا اونٹ جنگل میں گم ہونے کے بعد دوبارہ اُسے مل جائے‘‘۔
بخاري، الصحیح، 5 : 2325، رقم : 5950
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ قَالَ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ حَیْثُ یَذْکُرُنِي وَاﷲِ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِکُمْ یَجِدُ ضَالَّتَهُ بِالْفَلَاةِ وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ ذِرَاعًا وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ. باعًا. وَاِذَا أَقْبَلَ اِلَیِّ یَمْشِي، أَقْبَلْتَ اِلَیْهِ أُهَدْوِلُ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جہاں وہ ذکر کرتا ہے میں اسی کے ساتھ ہوتا ہوں اور بخدا اللہ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ جب تم میں سے کسی شخص کی جنگل میں گم شدہ سواری مل جائے اور جو شخص بقدر ایک بالشت میرا قرب حاصل کرتا ہے میں بقدر ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو بقدر ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے میں بقدر چار ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور جو شخص میرے پاس چل کر آتا ہے میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں‘‘۔
مسلم، الصحیح، 4 : 2102، رقم : 2675، درا احیاء التراث العربي بیروت
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِکُمْ مِنْهُ بِضَالَّتِهِ إِذَا وَجَدَهَا.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی گم شدہ چیز کے ملنے سے خوش ہو‘‘۔
ابن ماجہ، السنن، 2 : 1419، رقم : 4247، دار الفکر بیروت
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ لَوْ أَخْطَأْتُمْ حَتَّی تَبْلُغَ خَطَایَاکُمْ السَّمَاء ثُمَّ تُبْتُمْ لَتَابَ عَلَیْکُمْ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم اتنے گناہ کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں اور پھر خدا سے توبہ کرو تو خدا تمہاری توبہ قبول فرمائے گا‘‘۔
ابن ماجہ، السنن، 2 : 1419، رقم : 4248
توبہ ہے کیا؟ اس کے لیے درج ذیل حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :
عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَی عَبْدِ اﷲِ فَسَمِعْتُهُ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم النَّدَمُ تَوْبَةٌ فَقَالَ لَهُ أَبِي أَنْتَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُولُ النَّدَمُ تَوْبَةٌ قَالَ نَعَمْ.
’’ابن معقل کہتے ہیں میں ایک دن اپنے والد کے ساتھ عبد اللہ کی خدمت میں گیا وہ فرما رہے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا شرمندگی اور پشیمانی کا نام توبہ ہے۔ معقل نے عرض کیا کیا واقعی آپ نے یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہاں‘‘۔
ابن ماجہ، السنن، 2 : 1420، رقم : 4252
معلوم ہوا بندہ اپنے گناہوں سے نادم وپشیمان ہو کر سچے دل سے توبہ کر لے تو اللہ تعالی کو خوشی ہوتی ہے اور اللہ تعالی معاف فرماتا ہے، لہذا گنہگار کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سچے دل سے پچھلے گناہوں پر نادم ہو کر آئندہ کے لیے پکی توبہ کرنی چاہیے، اللہ تعالی معاف فرمائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری
قر آن مجید کی آیت کریمہ(وتعز من تشاء و تذل من تشاء‘) کا صحیح مفہوم بتائیں۔ اللہ کی طرف سے تو فقط عزت ہے، ذلت تو انسان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔ آیت کریمہ میں ’وتذل من تشاء‘ کی تفصیلی وضاحت فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق و مالک ہے اور ہر شئے اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کوئی ذرہ بھی اذنِ الٰہی کے بغیر اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے اور نہ کوئی پتّہ گرسکتا ہے۔ اس کائنات کا کوئی معمولی سا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے علم اور مشیت کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے اور انسان کیا عمل کرے گا‘ سب ازل سے ہی علمِ الٰہی میں ہے۔ اسی کو تقدیر کا نام دیا گیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو قدرت و اختیار عطا کیا ہے اور اسے خیر و شر کی تمیز سکھا کر خیر کو اختیار کرنے اور شر کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.
اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔
الْكَهْف، 18: 29
اسی طرح ایک مقام پر ارشاد ہے:
أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِO وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِO وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔ اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)۔ اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔
الْبَلَد، 90: 8-10
مذکورہ بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کی تمیز سکھائی اور ان میں سے کسی ایک کو اپنانے کا اختیار دیا ہے۔ اب انسان کی مرضی ہے کہ خیر کا راستہ اپنا کر عزت کما لے یا شر کو اپنا کر ذلت و رسوائی کمالے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لاَّ رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ.
سو کیا حال ہو گا جب ہم ان کو اس دن جس (کے بپا ہونے) میں کوئی شک نہیں جمع کریں گے، اور جس جان نے جو کچھ بھی (اعمال میں سے) کمایا ہو گا اسے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
آل عِمْرَان، 3: 25
اس آیتِ مبارکہ کا دوسرا حصہ موضوع سے متعلقہ ہے کہ جو انسان کمائے گا اسی کا بدلہ اسے ملے گا۔ یعنی اچھے اعمال کی جزا ملے گی اور برے اعمال کی سزا ملے گی۔ اسی منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اگلی آیت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو بآسانی بات سمجھ آ جائے گی۔ فرمایا:
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَـنْـزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.
(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔
آل عِمْرَان، 3: 25
یعنی اچھے اعمال انسان کی عزت اور درجات کی بلندی کا سبب بنتے ہیں اور برے اعمال انسان کی ذلت و پستی کا باعث ہوتے ہیں‘ جبکہ خدا تعالیٰ کی رضا انسان کو عزت دینے میں ہے ذلت و رسوائی میں نہیں۔
آیتِ مبارکہ کے جس حصے میں (و تذل من تشاء) کے بارے میں آپ نے دریافت کیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت کا تذکرہ ہے نہ کہ اس کی رضا کا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کسی کو ذلت دینا نہیں ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ ’جسے چاہے ذلت دے‘ اس کا مطلب ہے کہ ذلت ملنا بھی خدا تعالیٰ کی مشیت و ارادے کے تابع ہے۔ اچھائی ہو یا برائی دونوں اثر پزیری کے لیے اللہ تعالیٰ کے ارادے، مشیت اور اذن ہی کی محتاج ہیں‘ خود سے مؤثر نہیں ہیں۔ اس لیے عزت و ذلت‘ دونوں اللہ کی مشیت و ارادے سے مؤثر ہیں‘ از خود نہیں۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عزت اللہ تعالیٰ کے ارادے و مشیت کے ساتھ ساتھ اس کے حکم اور رضا سے بھی ہے جبکہ ذلت اللہ تعالیٰ مشیت و ارادے سے اثر پذیر تو ہے مگر اس کے کسب میں اللہ کا حکم اور رضا شامل نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ ہم نعت پڑھتے ہیں لیکن کچھ لوگ نعت کو ٹھیک نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ باتیں کرتے ہیں کہ قرآن میں یہ کہیں نہیں ہے۔ برائے مہربانی مجھے بتا دیں نعت کا ذکر کہاں ہے اور وہ آیات بھی بتا دیں جو نعت سے متعلق ہیں تاکہ میں اس کو بتا سکوں؟
سب سے پہلے تو ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ لفظ ‘نعت’ کیا ہے اس کے کیا معانی ہیں؟ تاکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ نعت پڑھنا معاذ اللہ کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس سے لوگوں کو منع کیا جائے۔ اس لیے چند کتب لغت سے نعت کے معانی درج ذیل ہیں:
1۔ محمد مرتضی الحسینی الزبیری بہت بڑے لغت کے امام ہیں اپنی کتاب تاج العروس میں لکھتے ہیں۔
نعت الشیء وانتعته اذا وصفته وجمع النعت نعوت…. النعت من کل شیء جيده وکل شیء کان بالغا تقول هذا نعت أی جيد.
‘کسی چیز کے وصف بیان کرنے کو نعت کہتے ہیں۔ نعت کی جمع نعوت ہے۔۔ ہر چیز کے عمدہ حصے کو نعت کہتے ہیں۔ جو چیز عمدگی کی آخری حد تک پہنچی ہوئی ہو تو کہتے ہیں یہ اس کی نعت ہے۔’
زبیری، تاج العروس، 5 : 124، دار الھد
2۔ محمد بن مکرم بن منظور الافریقی المصری بیان کرتے ہیں:
نعت : النعت وصفک الشیء تنعته بما فيه و تبالغ فی وصفه والنعت ما نعت به نعته ينعته نعتا وصفه.
‘کسی چیز کی تعریف کرنا، اس میں موجود خوبیوں کا بیان اور اس کی تعریف میں مبالغہ کرنا۔ نعت۔ جن الفاظ سے کسی کی تعریف کی جائے’
ابن منظور، لسان العرب، 2 : 99، دار صادر بیروت
3۔ مولانا وحید الزمان قاسمی کیرانوی، استاذ حدیث وادب عربی ومعاون مہتمم دار العلوم دیوبند اپنی کتاب القاموس الوحید میں لکھتے ہیں:
النعت : ‘صفت’ جمع : نعوت
شیء نعت : ‘بہت عمدہ چیز’
وحید الزماں، القاموس الوحید : 1671، ادارہ اسلامیات لاہور۔ کراچی
لوئیس معلوف المنجد فی اللغۃ میں نعت کے معانی لکھتے ہیں:
‘تعریف کرنا، بیان کرنا، اچھی صفات دکھانا’۔
لوئیس معلوف، المنجد فی اللغۃ : 819، بیروت
5۔ الحاج مولوی فیروز الدین رحمۃ اللہ علیہ اپنی آسان ترین کتاب فروز الغات اردو میں نعت کے معانی بیان کرتے ہیں:
‘نعت : مدح، ثنا، تعریف وتوصیف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں مدحیہ اشعار’
فیروز الدین، فیروز اللغات اردو : 1366، فیروز سنز لاہور، کراچی راولپنڈی
مذکورہ بالا چند اہل لغت کے علاوہ بھی تقریبا سب نے نعت کے معانی: تعریف کرنا، وصف بیان کرنا، خوبیاں بیان کرنا، اچھی صفات بیان کرنا وغیرہ بیان کیے ہیں۔ اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ قرآن پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں یا نہیں؟ لیکن آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی نعت قرآن مجید سے تلاش کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسد، بعض، تعصب کی عینک اتار کر غلامی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پٹہ گلے میں ڈالنا ضروری ہے۔ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جیسا ہی انسان سمجھے (معاذ اللہ) اور پھر یہ بھی کہے کہ قرآن مجید میں مجھے نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر نہیں آتی ہے اس کا یہ کہنا بھی درست ہے کیونکہ وہ بدبخت بینا ہو کر بھی بابینا ہی ہوتا ہے وہ اس قابل ہی نہیں ہوتا کہ شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی ناپاک کھوپڑی میں آئے۔ ویسے تو پورا قرآن ہی ہمارے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی نعت ہے۔ لیکن یہاں دلیل کے طور پر چند آیات درج ذیل ہیں:
1. إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا.
الاحزاب، 33 : 56
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو۔
2. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ.
الانبياء، 21 : 107
اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔
3. أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَo وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَo الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَo وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَo
الم نشرح، 94 : 1 تا 4
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لئے) کشادہ نہیں فرما دیاo اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیاo جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھاo اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیاo
4. لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.
الاحزاب، 33 : 21
فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے۔
5. قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ.
البقرة، 2 : 144
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں۔
6. فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى.
الانفال، 8 : 17
(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا، اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے،
7. إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ.
الفتح، 48 : 10
(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔
8. مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ.
النساء، 4 : 80
جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔
9. عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا.
بنی اسرائيل، 17 : 79
یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمٰی جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)
10. وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىo
الضحی، 93 : 4
اور بیشک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لئے پہلے سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہےo
جیسا کہ سب سے پہلے ہم نے نعت کا معنی ومفہوم سمجھایا تھا، اس کے بعد ہم نے قرآن پاک میں سے انتہائی اختصار کی ساتھ ایسی مثالیں بیان کر دی ہیں جن میں اللہ تعالی نے نعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرمائی ہے، ورنہ ایسی ہزاروں مثالیں قرآن پاک میں موجود ہیں۔ اب معترض یہ اعتراض کرے کہ جو نعت تم پڑھتے ہو وہ تو قرآن مجید کی آیات نہیں ہوتی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کرنا اللہ تعالی کی سنت ہے، جو کہ اس نے قرآن مجید کی صورت میں ہمیں عطا فرمائی ہے، لیکن قرآن وحدیث میں یہ کہیں ذکر نہیں کیا گیا کہ نعت صرف عربی میں ہی ہو گی۔ عشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی زبان میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کرنے کا حق رکھتا ہے۔
جو امور جائز نہیں ہیں ان کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن جائز کام کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ہم نے پھر بھی دلائل سے نعت کا معنی ومفہوم پیش کر دیا ہے۔ امید ہے مذکورہ بالا دلائل نعت پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں مددگار ثابت ہوں گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی