حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
- Admin
- Nov 17, 2021
سرکار بغداد حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسم مبارک ” عبدالقادر” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کنیت ” ابو محمد “اور القابات” محی الدین ، محبوب سبحانی ، غوث الثقلین ، غوث الاعظم ” وغیرہ ہیں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 470 ھ میں بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور 561ھ میں بغداد شریف ہی میں وصال فرمایا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزار پر انوار عراق کے مشہور شہر بغداد میں ہے۔
(بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکرنسبہ وصفتہ، ص۱۷۱،الطبقات الکبرٰی للشعرانی،ابو صالح سیدی عبدالقادرالجیلی،ج۱،ص۱۷۸)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ والد ماجد کی نسبت سے حسنی ہیں۔
سلسلۂ نسب یوں ہے, سیّد محی الدین ابو محمد عبدالقادر بن سیّد ابو صالح موسیٰ جنگی دوست بن سیّد ابو عبداللہ بن سیّد یحیٰی بن سید محمد بن سیّد داؤد بن سیّد موسیٰ ثانی بن سیّد عبداللہ بن سیّد موسیٰ جون بن سیّد عبداللہ محض بن سیّدامام حسن مثنیٰ بن سیّد امام حسن بن سیّدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سیّد ہیں۔(بهجة الاسرار، معدن الانوار، ذکر نسبه، ص۱۷۱)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خاندان صالحین کا گھرانا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نانا جان، دادا جان، والد ماجد، والدہ محترمہ، پھوپھی جان، بھائی اور صاحبزادگان سب متقی و پرہیزگار تھے، اسی وجہ سے لوگ آپ ؒکے خاندان کواشراف کا خاندان کہتے تھے ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم حضرت ابوصالح سیّدموسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے، آپ کا اسم گرامی “سیّد موسیٰ” کنیت “ابوصالح”اور لقب “جنگی دوست” تھا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا لقب جنگی دوست اس لئے ہوا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خالصۃً اللہ عزوجل کی رضا کے لئے نفس کشی اور ریاضت ِشرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کے لئے مشہور تھے، اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے، چنانچہ ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جامع مسجد کو جا رہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چند ملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پر اٹھائے جا رہے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب ان کی طرف دیکھا تو جلال میں آگئے اور ان مٹکوں کو توڑ دیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے رعب اور بزرگی کے سامنے کسی ملازم کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی تو انہوں نے خلیفۂ وقت کے سامنے واقعہ کا اظہار کیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف خلیفہ کو ابھارا، تو خلیفہ نے کہا: ’’سیّد موسیٰ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کو فوراً میرے دربارمیں پیش کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت سیّد موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دربار میں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ وغضب سے کرسی پر بیٹھا تھا، خلیفہ نے للکار کر کہا: ’’آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کو رائیگاں کردیا؟” حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: “میں محتسب ہوں اور میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔‘‘ خلیفہ نے کہا: “آپ کس کے حکم سے محتسب مقرر کئے گئے ہیں؟” حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رعب دارلہجہ میں جواب دیا: “جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ایسی رقّت طاری ہوئی کہ سر بزانو ہوگیا (یعنی گھٹنوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیر کے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا: ’’حضور والا! امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟” حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: “تمہارے حال پر شفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر۔” خلیفہ پر آپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثر ہوا اور متاثر ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں عرض گزارہوا: “عالیجاہ! آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پر مامورہیں۔
حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے متوکلانہ انداز میں فرمایا: “جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامورہوں تو پھر مجھے خلق کی طرف سے مامور ہونے کی کیا حاجت ہے۔” اُسی دن سے آپ “جنگی دوست” کے لقب سے مشہور ہوگئے۔
(سيرت غوث الثقلين، ص۵۲)
حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے مشائخ میں سے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت زاہداور پرہیزگارہونے کے علاوہ صاحب فضل وکمال بھی تھے، بڑے بڑے مشائخ کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شرف ملاقات حاصل کیا ۔
ایک بار جیلان میں قحط سالی ہوگئی لوگوں نے نماز استسقاء پڑھی لیکن بارش نہ ہوئی تو لوگ آپ کی پھوپھی جان حضرت سیدہ اُم عائشہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کے گھر آئے اور آپ سے بارش کے لئے دعا کی درخواست کی وہ اپنے گھر کے صحن کی طرف تشریف لائیں اور زمین پرجھاڑو دے کر دعا مانگی : “اے رب العالمین! میں نے تو جھاڑو دے دیا اور اب تو چھڑکاؤ فرما دے۔” کچھ ہی دیر میں آسمان سے اس قدر بارش ہوئی جیسے مشک کا منہ کھول دیاجائے، لوگ اپنے گھروں کو ایسے حال میں لوٹے کہ تمام کے تمام پانی سے تر تھے اور جیلان خوشحال ہوگیا۔
(بهجة الاسرار، ذکر نسبه وصفته رحمة الله تعالیٰ عليه، ص۱۷۳)
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف “عوارف المعارف” میں تحریر فرماتے ہیں:
“ایک شخص نے حضور سیدنا غوثُ الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا: “یاسیدی! آپ نے نکاح کیوں کیا؟” سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: “بے شک میں نکاح کرنا نہیں چاہتا تھا کہ اس سے میرے دوسرے کاموں میں خلل پیدا ہو جائے گا مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ “عبدالقادر! تم نکاح کر لو، اللہ عزوجل کے ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔” پھرجب یہ وقت آیا تو اللہ عزوجل نے مجھے چار بیویاں عطا فرمائیں، جن میں سے ہر ایک مجھ سے کامل محبت رکھتی ہے۔
”(عوارف المعارف، الباب الحادی و العشرون فی شرح حال المتجرد و المتاهل من الصوفية ۔۔۔ الخ، ص۱۰۱، ملخصاً)
حضور سیدی غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بیویاں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے روحانی کمالات سے فیض یاب تھیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالجبار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ “جب بھی والدہ محترمہ کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتی تھیں تو وہاں چراغ کی طرح روشنی ہو جاتی تھیں۔ ایک موقع پر میرے والد محترم غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی وہاں تشریف لے آئے، جیسے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نظر اس روشنی پرپڑی تووہ روشنی فوراً غائب ہوگئی، تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ “یہ شیطان تھا جو تیری خدمت کرتا تھا اسی لئے میں نے اسے ختم کر دیا، اب میں اس روشنی کو رحمانی نورمیں تبدیل کئے دیتا ہوں۔” اس کے بعد والدہ محترمہ جب بھی کسی تاریک مکان میں جاتی تھیں تو وہاں ایسا نور ہوتا جوچاند کی روشنی کی طرح معلوم ہوتا تھا۔
”(بهجة الاسرار و معدن الانوار، ذکر فضل اصحابه ۔۔۔ الخ، ص۱۹۶)
محبوبِ سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت کی رات مشاہدہ فرمایا کہ سرور کائنات، فخر موجودات، منبع کمالات، باعث تخلیق کائنات، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ صلی للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بمع صحابہ کرام آئمۃ الہدیٰ اور اولیاء عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اِن کے گھر جلوہ افروز ہیں اوران الفاظ مبارکہ سے ان کو خطاب فرما کر بشارت سے نوازا: يَا اَبَا صَالِح اَعْطَاكَ اللّٰهُ اِبْنًا وَ هُوَ وَلِيٌّ وَ مَحْبُوْبِيْ وَ مَحْبُوْبُ اللّٰهِ تَعَالٰی وَ سَيَکُوْنُ لَهٗ شَانٌ فِي الْاَوْلِيَآءِ وَ الْاَقْطَابِ کَشَانِيْ بَيْنَ الْاَنْبِيَاءِ وَ الرُّسُلِ
یعنی اے ابو صالح! اللہ عزوجل نے تم کو ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی ہے اور وہ میرا اور اللہ عزوجل کا محبوب ہے اور اس کی اولیاء اور اَقطاب میں ویسی شان ہوگی جیسی انبیاء اور مرسلین علیہم السلام میں میری شان ہے۔‘‘(سيرت غوث الثقلين، ص۵۵ بحواله تفريح الخاطر)
غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ درمیان اولیاء
چوں محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم درمیان انبیاء
حضرت ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خواب میں شہنشاہ عرب و عجم، سرکار دو عالم، محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے یہ بشارت دی کہ “تمام اولیاء اللہ تمہارے فرزند ارجمند کے مطیع ہوں گے اور ان کی گردنوں پر ان کا قدم مبارک ہوگا۔
”(سيرت غوث الثقلين، ص۵۵ بحواله تفريح الخاطر)
جس کی منبر بنی گردن اولیاء
اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام
جن مشائخ نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی قطبیت کے مرتبہ کی گواہی دی ہے “روضۃ النواظر” اور “نزہۃ الخواطر” میں صاحب ِکتاب ان مشائخ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علی ہسے پہلے اللہ عزوجل کے اولیاء میں سے کوئی بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا منکر نہ تھا بلکہ انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آمد کی بشارت دی، چنانچہ حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے زمانہ مبارک سے لے کر حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے زمانۂِ مبارک تک تفصیل سے خبردی کہ جتنے بھی اللہ عزوجل کے اولیاء گزرے ہیں سب نے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خبر دی ہے۔(سيرت غوث الثقلين، ص۵۸)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مجھے عالم غیب سے معلوم ہوا ہے کہ پانچویں صدی کے وسط میں سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ایک قطبِ عالم ہوگا، جن کا لقب محی الدین اور اسم مبارک سید عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہے اور وہ غوث اعظم ہوگا اور جیلان میں پیدائش ہوگی ان کو خاتم النبیین، رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ائمہ کرام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے علاوہ اولین و آخرین کے ’’ہر ولی اور ولیہ کی گردن پر میرا قدم ہے۔‘‘ کہنے کا حکم ہوگا۔‘‘( سيرت غوث الثقلين، ص ۵۷)
شیخ ابوبکر بن ہوارا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک روز اپنے مریدین سے فرمایا کہ “عنقریب عراق میں ایک عجمی شخص جو کہ اللہ عزوجل اور لوگوں کے نزدیک عالی مرتبت ہوگا اُس کا نام عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہوگا اور بغداد شریف میں سکونت اختیار کرے گا، قَدَمِيْ هٰذِهٖ عَلٰي رَقَبَةِ کُلِّ وَلِيِّ اللّٰهِ
یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے کا اعلان فرمائے گا اور زمانہ کے تمام اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کے فرمانبردار ہوں گے۔”(بهجة الاسرار، ذکر اخبار المشايخ عنه بذالک، ص۱۴)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں ہوئی اور پہلے دن ہی سے روزہ رکھا۔ سحری سے لے کر افطاری تک آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ محترمہ کا دودھ نہ پیتے تھے، چنانچہ سیدنا غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ “جب میرا فرزند ارجمند عبدالقادر پیدا ہوا تو رمضان شریف میں دن بھر دودھ نہ پیتا تھا۔”(بهجة الاسرار و معدن الانوار، ذکر نسبه وصفته رضي الله تعاليٰ عنه، ص۱۷۲)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا ام الخیر فاطمہ بنت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرمایا کرتی تھیں: “جب میں نے اپنے صاحبزادے عبدالقادر کو جنا تو وہ رمضان المبارک میں دن کے وقت میرا دودھ نہیں پیتا تھا اگلے سال رمضان کا چاند غبار کی وجہ سے نظر نہ آیا تو لوگ میرے پاس دریافت کرنے کے لئے آئے تو میں نے کہا کہ “میرے بچے نے دودھ نہیں پیا۔” پھر معلوم ہوا کہ آج رمضان کا دن ہے اور ہمارے شہر میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ سیّدوں میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتا۔”(بهجة الاسرار، ذکر نسبه وصفته رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۷۲)
شیخ محمد بن قائدا لأوانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ “حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہم سے فرمایا کہ “حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا:’’ يَاعَبْدَالْقَادِرِمَا لِهٰذَا خُلِقْتَیعنی اے عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! تم کو اس قسم کے کاموں کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا۔” میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میدان عرفات میں لوگ کھڑے ہیں، اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: “آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے راہ ِخدا عزوجل میں وقف فرما دیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تا کہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں ۔ والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا میں نے بیل والا واقعہ عرض کردیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ ۸۰ دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے ۴۰ دینار لے لئے اور ۴۰ دینار اپنے بھائی سید ابو احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے چھوڑ دیئے، والدہ ماجدہ نے میرے چالیس دینار میری گدڑی میں سی دیئے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے مجھے ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوداع کہنے کے لئے تشریف لائیں اور فرمایا: “اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔(بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۶۷)
حضور پرنور،محبوب سبحانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علی ہسے کسی نے پوچھا: “آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا؟” ارشاد فرمایا کہ “میری عمر دس برس کی تھی میں مکتب میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کے لئے میرے ساتھ جاتے اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ” اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کے لیے جگہ فراخ کر دو۔”(بهجة الاسرار، ذکر کلمات اخبر بھا … الخ، ص۴۸)
حضرت شیخ امام موقف الدین بن قدامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “ہم ۵۶۱ ہجری میں بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں پر علم، عمل اور حال وفتوی نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لئے نہیں کرتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں تمام علوم جمع ہیں اور جو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے علم حاصل کرتے تھے آپ ان تمام طلبہ کے پڑھانے میں صبر فرماتے تھے، آپ کا سینہ فراخ تھا اور آپ سیر چشم تھے، اللہ عزوجل نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوال عزیزہ جمع فرما دیئے تھے۔”(بهجة الاسرار، ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۲۲۵)
امام ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانی اور شیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متحریر فرماتے ہیں کہ “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے ۔ ایک جگہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے تفسیر، حدیث، فقہ اورعلم الکلام پڑھتے تھے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کو تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قرآن مجید پڑھاتے تھے۔”(بهجة الاسرار، ذکر علمه وتسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۲۲۵)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ “ایک روز کسی قاری نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس شریف میں قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنی پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمادیئے اورپھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر معنی کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے۔”(اخبارالاخيار، ص۱۱)
بلاد ِعجم سے ایک سوال آیا کہ “ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کرے گاکہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہو تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کر رہا ہو، اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہو جائیں گی، تو اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہئے؟‘‘ اس سوال سے علماء عراق حیران اور ششدر رہ گئے ۔ اور اس مسئلہ کو انہوں نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ “وہ شخص مکہ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کر کے اپنی قسم کو پورا کرے ۔” اس شافی جواب سے علماء عراق کو نہایت ہی تعجب ہوا کیوں کہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہوگئےتھے۔‘‘(اخبارالاخيار)
حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن خضررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد فرماتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مدرسہ میں خواب دیکھا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اور اس میں صحراء اور سمندر کے مشائخ موجود ہیں اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے صدر ہیں، ان میں بعض مشائخ تو وہ ہیں جن کے سر پر صرف عمامہ ہے اور بعض وہ ہیں جن کے عمامہ پر ایک طرہ ہے اور بعض کے دو طرے ہیں لیکن حضور غوث پاک شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے عمامہ شریف پر تین طرے (یعنی عمامہ پر لگائے جانے والے مخصوص پھندنے) ہیں۔ میں ان تین طُرّوں کے بارے میں متفکر تھا اور اسی حالت میں جب میں بیدار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے سرہانے کھڑے تھے ارشاد فرمانے لگے کہ ’’خضر!ایک طُرّہ علم شریعت کی شرافت کا اور دوسرا علم حقیقت کی شرافت کا اور تیسرا شرف و مرتبہ کا طُرّہ ہے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعالیٰ عليه، ص۲۲۶)
حضرت شیخ امام ابوالحسن علی بن الہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “میں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور شیخ بقابن بطو کے ساتھ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے روضۂِ اقدس کی زیارت کی، میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قبر سے باہر تشریف لائے اور حضور سیدی غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے سینے سے لگالیا اور انہیں خلعت پہنا کر ارشاد فرمایا: “اے شیخ عبدالقادر !بے شک میں علم شریعت، علم حقیقت، علم حال اور فعل حال میں تمہارا محتاج ہوں۔”(بهجة الاسرار، ذکر علمه وتسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص،۲۲۶)
حضرت قطب ربانی شیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی نے اپنی ثابت قدمی کا خود اس انداز میں تذکرہ فرمایا ہے کہ “میں نے(راہِ خدا عزوجل میں) بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا۔”(قلائد الجواهر، ص۱۰)
شیخ عثمان الصریفینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: “میں نے شہنشاہِ بغداد، حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان مبارک سے سنا کہ ’’میں شب و روز بیابانوں اور ویران جنگلوں میں رہا کرتا تھا میرے پاس شیاطین مسلح ہو کر ہیبت ناک شکلوں میں قطار در قطار آتے اور مجھ سے مقابلہ کرتے، مجھ پر آگ پھینکتے مگر میں اپنے دل میں بہت زیادہ ہمت اور طاقت محسوس کرتا اور غیب سے کوئی مجھے پکار کر کہتا: “اے عبدالقادر! اُٹھو ان کی طرف بڑھو، مقابلہ میں ہم تمہیں ثابت قدم رکھیں گے اور تمہاری مدد کریں گے۔” پھر جب میں ان کی طرف بڑھتا تو وہ دائیں بائیں یا جدھر سے آتے اسی طرف بھاگ جاتے، ان میں سے میرے پاس صرف ایک ہی شخص آتا اور ڈراتا اور مجھے کہتا کہ “یہاں سے چلے جاؤ۔” تو میں اسے ایک طمانچہ مارتا تو وہ بھاگتا نظر آتا پھر میںلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِپڑھتا تو وہ جل کر خاک ہو جاتا۔”(بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۶۵)
مفتی عراق محی الدین شیخ ابو عبداللہ محمد بن علی توحیدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی،قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جلد رونے والے، نہایت خوف والے، باہیبت، مستجاب الدعوات، کریم الاخلاق، خوشبودار پسینہ والے، بُری باتوں سے دُور رہنے والے، حق کی طرف لوگوں سے زیادہ قریب ہونے والے، نفس پر قابو پانے والے، انتقام نہ لینے والے، سائل کو نہ جھڑکنے والے، علم سے مہذب ہونے والے تھے، آداب شریعت آپ کے ظاہری اوصاف اور حقیقت آپ کا باطن تھا۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من شرائف اخلاقه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۲۰۱)
قطب شہیر، سیدنا احمد رفاعی حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: “شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دائیں ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی لیں، ہمارے اس وقت میں سید عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کوئی ثانی نہیں۔”( بهجة الاسرار، ذکراحترام المشائخ والعلماء له ثنايهم عليه، ص۴۴۴)
شیخ ابو عبداللہ محمد بن ابو الفتح ہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چالیس سال تک خدمت کی، اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو فرما کر دو رکعت نمازِ نفل پڑھ لیتے تھے۔”(بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعالیٰ عليه، ص۱۶۴)
حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پندرہ سال تک رات بھر میں ایک قرآنِ پاک ختم کرتے رہے(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه ۔۔۔ الخ، ص۱۱۸) ۔ اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہر روز ایک ہزار رکعت نفل ادا فرماتے تھے۔‘‘(تفريح الخاطر، ص۳۶)
روزانہ رات کو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا دسترخوان بچھایا جاتا تھا جس پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے مہمانوں کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے، کمزوروں کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے، بیماروں کی عیادت فرماتے، طلب علم دین میں آنے والی تکالیف پر صبر کرتے۔(بهجة الاسرار، ذکرشي من شرائف اخلاقه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۲۰۰)
شیخ عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ “ایک مرتبہ حضورغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ’’میرے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا اور حسنِ اخلاق کامل زیادہ فضیلت والے اعمال ہیں۔” پھرارشاد فرمایا: “میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا، اگر صبح کو میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک پیسہ بھی نہ بچے(کہ غریبوں اور محتاجوںمیں تقسیم کردوں اوربھوکے لوگوں کو کھانا کھلادوں۔)(قلائد الجواهر، ملخصاًص۸)
ایک دفعہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک شخص کو کچھ مغموم اور افسردہ دیکھ کر پوچھا: “تمہارا کیا حال ہے؟” اس نے عرض کی: ’’حضور والا! دریائے دجلہ کے پار جانا چاہتا تھا مگر ملاح نے بغیر کرایہ کے کشتی میں نہیں بٹھایا اور میرے پاس کچھ بھی نہیں۔” اتنے میں ایک عقیدت مند نے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر تیس دینار نذرانہ پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ تیس دینار اس شخص کو دے کر فرمایا: “جاؤ! یہ تیس دینار اس ملاح کو دے دینا اور کہہ دینا کہ “آئندہ وہ کسی غریب کو دریا عبور کرانے پر انکار نہ کرے۔”( اخبار الاخيار، ص۱۸)
حضرت بزاز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ’’میں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے سنا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کرسی پر بیٹھے فرما رہے تھے کہ : میں نے حضور سیدِ عالم، نورِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ’’بیٹا تم بیان کیوں نہیں کرتے؟” میں نے عرض کیا: “اے میرے نانا جان (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)! میں ایک عجمی مرد ہوں، بغداد میں فصحاء کے سامنے بیان کیسے کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ’’ بیٹا ! اپنا منہ کھولو۔‘‘ میں نے اپنا منہ کھولا، تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے میرے منہ میں سات دفعہ لعاب مبارک ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ ’’لوگوں کے سامنے بیان کیا کرو اور انہیں اپنے رب عزوجل کی طرف عمدہ حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔
پھر میں نے نمازِ ظہراداکی اور بیٹھ گیا، میرے پاس بہت سے لوگ آئے اور مجھ پر چلائے، اس کے بعدمیں نے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالٰی وجھہ الکریم کی زیارت کی کہ میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’اے بیٹے تم بیان کیوں نہیں کرتے ؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’اے میرے والد! لوگ مجھ پر چلاتے ہیں ۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اے میرے فرزند! اپنا منہ کھولو۔‘‘
میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ دفعہ لعاب ڈالا، میں نے عرض کیا کہ ’’آپ نے سات دفعہ کیوں نہیں ڈالا ؟‘‘ تو انہوں نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے۔‘‘پھر وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے اور میں نے یہ شعر پڑھا:
ترجمہ:(۱)فکر کا غوطہ زن دل کے سمندر میں معارف کے موتیوں کے لئے غوطہ لگاتا ہے پھر وہ ان کو سینے کے کنارہ کی طرف نکال لاتا ہے۔
(۲)اس کی زبان کے ترجمان کا تاجر بولی دیتا ہے پھر وہ ایسے گھروں میں کہ اللہ عزوجل نے ان کی بلندی کا حکم دیا ہے جو طاعت کی عمدہ قیمتوں کے ساتھ خرید لیتا ہے۔(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعا بشي من عجائب، ص۵۸)
حضورِ غوثِ اعظم حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا پہلا بیان اجتماعِ برانیہ میں ماہ شوال المکرم ۵۲۱ ہجری میں عظیم الشان مجلس میں ہوا جس پر ہیبت و رونق چھائی ہوئی تھی اولیاء کرام اور فرشتوں نے اسے ڈھانپا ہوا تھا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب و سنت کی تصریح کے ساتھ لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف بلایا تو وہ سب اطاعت و فرمانبرداری کے لئے جلدی کرنے لگے۔(بهجة الاسرار، ذکر و عظه ، ص۱۷۴)
سیدی غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فرزندِ ارجمند سیدنا عبدالوہاب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ۵۲۱ھ سے ۵۶۱ھ تک چالیس سال مخلوق کو وعظ و نصیحت فرمائی۔(بهجة الاسرار، ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۸۴)
حضرت ابراہیم بن سعد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “جب ہمارے شیخ حضورِ غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عالموں والا لباس پہن کر اونچے مقام پر جلوہ افروز ہو کر بیان فرماتے تو لوگ آپ کے کلام مبارک کو بغور سنتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے۔”(المرجع السابق، ص۱۸۹)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس مبارک میں باوجود یہ کہ شرکاء اجتماع بہت زیادہ ہوتے تھے لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آواز مبارک جیسی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی ویسی ہی دُور والوں کو سنائی دیتی تھی یعنی دور اور نزدیک والوں کے لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آوازمبارک یکساں تھی ۔( بهجة الاسرار، ذکرو عظه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۸۱)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شرکاء اجتماع کے دلوں کے مطابق بیان فرماتے اور کشف کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہو جاتے جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ منبر پر کھڑے ہو جاتے تو آپ کے جلال کی وجہ سے لوگ بھی کھڑے ہو جاتے تھے اور جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اُن سے فرماتے کہ ’’چپ رہو۔‘‘ تو سب ایسے خاموش ہوجاتے کہ آپ کی ہیبت کی وجہ سے ان کی سانسوں کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہ دیتا۔‘‘(المرجع السابق، ص۱۸۱)
انبیاء علیہم السلام اور اولیاء علیہم الرحمۃ کی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بیان میں تشریف آوری :
شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس شریف میں کل اولیاء علیہم الرحمۃ اور انبیاء کرام علیہم السلام جسمانی حیات اور ارواح کے ساتھ نیز جن اور ملائکہ تشریف فرما ہوتے تھے اور حبیب ِربُّ العالمین عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بھی تربیت و تائید فرمانے کے لئے جلوہ افروز ہوتے تھے اور حضرت سیدنا خضر علیہ السلام تو اکثر اوقات مجلس شریف کے حاضرین میں شامل ہوتے تھے اور نہ صرف خود آتے بلکہ مشائخ زمانہ میں سے جس سے بھی آپ علیہ السلام کی ملاقات ہوتی تو ان کو بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں حاضر ہونے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ ’’جس کو بھی فلاح و کامرانی کی خواہش ہو اس کو غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس شریف کی ہمیشہ حاضری ضروری ہے۔‘‘(اخبار الاخيار، ص۱۳)
شیخ ابو زکریا یحییٰ بن ابی نصر صحراوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد فرماتے ہیں کہ ’’میں نے ایک دفعہ عمل کے ذریعے جنات کو بلایا تو انہوں نے کچھ زیادہ دیر کر دی پھر وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ’’جب شیخ سید عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی قدس سرہ النورانی بیان فرما رہے ہوں تو اس وقت ہمیں بلانے کی کوشش نہ کیا کرو۔‘‘ میں نے کہا وہ کیوں؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہم حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’تم بھی ان کی مجلس میں جاتے ہو۔‘‘ انہوں نے کہا :’’ہاں! ہم مردوں میں کثیر تعداد میں ہوتے ہیں، ہمارے بہت سے گروہ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے اور ان سب نے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ پر توبہ کی ہے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۸۰)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: “میرے ہاتھ پر پانچ سو سے زائد یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکو، چور، فساق و فجار، فسادی اور بدعتی لوگوں نے توبہ کی۔”(بهجة الاسرار، ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۸۴)
ایک بارسرکار بغداد حضور سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دریا کی طرف تشریف لے گئے وہاں ایک ۹۰ سال کی بڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رورہی تھی ،ایک مریدنے بارگاہِ غوثیت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں عرض کیا:’’ مرشدی! اس ضعیفہ کا اکلوتا خوبروبیٹاتھا، بیچاری نے اس کی شادی رچائی دولہا نکاح کرکے دلہن کو اسی دریا میں کشتی کے ذریعے اپنے گھر لارہاتھاکہ کشتی الٹ گئی اوردولہا دلہن سمیت ساری بارات ڈوب گئی، اس واقعہ کو آج بارہ سال گزر چکے ہیں مگر ماں کاجگر ہے ،بے چاری کاغم جاتا نہیں ہے،یہ روزانہ یہا ں دریا پر آتی ہے اور بارات کونہ پاکر رودھوکر چلی جاتی ہے ۔‘‘ حضورِ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس ضعیفہ پر بڑا ترس آیا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دیئے، چند منٹ تک کچھ ظہورنہ ہوا،بے تاب ہوکر بارگاہِ الٰہی عزوجل میں عرض کی: ’’یااللہ عزوجل!اس قدر تاخیر کی کیاوجہ ہے؟‘‘ ارشادہوا:’’اے میرے پیارے!یہ تاخیر خلافِ تقدیرنہیں ہے ،ہم چاہتے توایک حکم ’’کُنْ‘‘سے تمام زمین و آسمان پیدا کر دیتے مگر بمقتضائے حکمت چھ دن میں پیدا کئے، بارات کو ڈوبے ہوئے بارہ سال ہوچکے ہیں،اب نہ وہ کشتی باقی رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی سواری، تمام انسانوں کا گوشت وغیرہ بھی دریائی جانور کھاچکے ہیں، ریزہ ریزہ کو اجزائے جسم میں اکٹھا کروا کردوبارہ زندگی کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے اب ان کی آمد کاوقت ہے۔‘‘ ابھی یہ کلام اختتام کو بھی نہ پہنچاتھاکہ یکایک وہ کشتی اپنے تمام ترسازوسامان کے ساتھ بمع دولہا،دلہن وباراتی سطح آب پر نمودار ہوگئی اور چندہی لمحوں میں کنارے آلگی، تمام باراتی سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دعائیں لے کرخوشی خوشی اپنے گھر پہنچے، اس کرامت کو سن کربے شمارکفّار نے آ آکر سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دستِ حق پرست پراسلام قبول کیا۔(سلطان الاذکارفي مناقب غوث الابرار)
نکالا ہے پہلے تو ڈوبے ہوؤں کو اوراب ڈوبتوں کو بچا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ کرامت اس قدر تواتر کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود برصغیر پاک و ہند کے گوشے گوشے میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔(الحمدلله عزوجل ) اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت الشاہ مولانا احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے اس واقعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’اگرچہ(یہ روایت) نظر سے نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امرخلافِ شرع نہیں، اس کا انکار نہ کیا جائے۔(فتاویٰ رضويه جديد، ج۶۲۹،۲۹)
سرکارِ، بغداد حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “جب میں علم دین حاصل کرنے کے لئے جیلان سے بغداد قافلے کے ہمراہ روانہ ہوا اور جب ہمدان سے آگے پہنچے تو ساٹھ ڈاکو قافلے پر ٹوٹ پڑے اور سارا قافلہ لوٹ لیا لیکن کسی نے مجھ سے تعرض نہ کیا، ایک ڈاکو میرے پاس آکر پوچھنے لگا اے لڑکے ! تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟ میں نے جواب میں کہا:”ہاں۔” ڈاکونے کہا: “کیاہے ؟” میں نے کہا:”چالیس دینار۔” اس نے پوچھا: “کہاں ہیں؟” میں نے کہا: “گدڑی کے نیچے۔”
ڈاکو اس راست گوئی کو مذاق تصور کرتا ہوا چلا گیا، اس کے بعد دوسرا ڈا کو آیا اور اس نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے اور میں نے یہی جوابات اس کوبھی دیئے اور وہ بھی اسی طرح مذاق سمجھتے ہوئے چلتا بنا، جب سب ڈاکو اپنے سردار کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سردار کو میرے بارے میں بتایا تو مجھے وہاں بلا لیا گیا ، وہ مال کی تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔ڈاکوؤں کا سردار مجھ سے مخاطب ہوا:’’ تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے کہا: چالیس دینار ہیں، ڈاکوؤں کے سردار نے ڈاکوؤں کو حکم دیتے ہوئے کہا:”اس کی تلاشی لو۔ “تلاشی لینے پر جب سچائی کا اظہار ہوا تو اس نے تعجب سے سوال کیا کہ ’’ تمہیں سچ بولنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟” میں نے کہا: “والدہ ماجدہ کی نصیحت نے۔” سردار بولا: “وہ نصیحت کیا ہے؟” میں نے کہا: “میری والدہ محترمہ نے مجھے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین فرمائی تھی اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ سچ بولوں گا۔”توڈاکوؤں کا سردار رو کر کہنے لگا:”یہ بچہ اپنی ماں سے کئے ہوئے وعدہ سے منحرف نہیں ہوا اور میں نے ساری عمر اپنے رب عزوجل سے کئے ہوئے وعدہ کے خلاف گزار دی ہے۔” اسی وقت وہ ان ساٹھ ڈاکوؤں سمیت میرے ہاتھ پر تائب ہوا اور قافلہ کا لوٹا ہوا مال واپس کر دیا۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص ۱۶۸)
سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مدینہ منورہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد شریف کی طرف آرہے تھے کہ راستہ میں ایک چور کھڑا کسی مسافر کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کو لوٹ لے ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب اس کے قریب پہنچے تو پوچھا : “تم کون ہو؟” اس نے جواب دیا کہ “دیہاتی ہوں۔” مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کشف کے ذریعے اس کی معصیت اور بدکرداری کو لکھا ہوا دیکھ لیا اور اس چور کے دل میں خیال آیا:”شاید یہ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہیں۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس کے دل میں پیدا ہونے والے خیال کا علم ہوگیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”میں عبدالقادر ہوں۔”
تو وہ چور سنتے ہی فوراً آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارک قدموں پر گر پڑا اور اس کی زبان پر يَا سَيِّدِيْ عَبْدَالْقَادِرِشَيْئًا لِلّٰهِ(یعنی اے میرے سردار عبدالقادر میرے حال پررحم فرمائیے) جاری ہوگیا۔” آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا اور اس کی اصلاح کے لئے بارگاہ الٰہی عزوجل میں متوجہ ہوئے تو غیب سے ندا آئی: “اے غوث اعظم! اس چور کو سیدھا راستہ دکھا دو اور ہدایت کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے اسے قطب بنا دو۔” چنانچہ آپ کی نگاہ فیض رساں سے وہ قطبیت کے درجہ پر فائز ہوگیا۔”(سيرت غوث الثقلين، ص۱۳۰)
حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قصیدہ غوثیہ شریف میں فرماتے ہیں:“بلا دالله ملکي تحت حکميیعنی اللہ عزوجل کے تمام شہر میرے تحت تصرف اور زیر حکومت ہیں۔”(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعا… الخ، ص۱۴۷)
حضرت عبدالملک ذیال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ “میں ایک رات حضور پرُنور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مدرسے میں کھڑا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اندر سے ایک عصا دست اقدس میں لئے ہوئے تشریف فرما ہوئے میرے دل میں خیال آیا کہ “کاش حضور اپنے اس عصا سے کوئی کرامت دکھلائیں۔” ادھر میرے دل میں یہ خیال گزرا اور ادھر حضور نے عصا کو زمین پر گاڑ دیا تو وہ عصا مثل چراغ کے روشن ہوگیا اور بہت دیر تک روشن رہا پھر حضور پرُنور نے اسے اکھیڑ لیا تو وہ عصا جیساتھا ویسا ہی ہوگیا، اس کے بعد حضور نے فرمایا:’’ بس اے ذیال! تم یہی چاہتے تھے۔”( بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه … الخ، ص۱۵۰)
ایک مرتبہ رات میں سرکارِ بغداد حضرتِ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہمراہ شیخ احمد رفاعی اور عدی بن مسافر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار پرُ انوار کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے، مگر اس وقت اندھیرا بہت زیادہ تھا حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے آگے آگے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب کسی پتھر ، لکڑی ، دیوار یا قبر کے پاس سے گزرتے تو اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے تو اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہاتھ مبارک چاند کی طرح روشن ہو جاتا تھا اور اس طرح وہ سب حضرات آپ کے مبارک ہاتھ کی روشنی کے ذریعے حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار مبارک تک پہنچ گئے۔”(قلائد الجواهر، ملخصاً ص۷۷)
حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: “میرے پروردگار عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ “جو مسلمان تمہارے مدرسے کے دروازے سے گزرے گا اس کے عذاب میں تخفیف فرماؤں گا۔”(الطبقات الکبریٰ ، منهم عبدالقادر جيلاني، ج۱، ص۱۷۹، وبهجة الاسرار، ذکر فضل اصحابه و بشراهم، ص۱۹۴)
(۱) ایک شخص نے خدمت ِاقدس میں حاضر ہو کر عرض کی کہ “فلاں قبرستان میں ایک شخص دفن کیا گیا ہے جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اس کی قبر سے چیخنے کی آواز آتی ہے جیسے عذاب میں مبتلا ہے۔” حضور پرنور نے ارشاد فرمایا: ’’ کیا وہ ہم سے بیعت ہے؟” عرض کی : “معلوم نہیں۔” فرمایا:”ہمارے یہاں کے آنے والوں میں تھا؟” عرض کی: “معلوم نہیں۔” فرمایا: “کبھی ہمارے گھر کا کھانا اس نے کھایا ہے؟” عرض کی: “یہ بھی معلوم نہیں۔” حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مراقبہ فرمایا اور ذرا دیر میں سر اقدس اٹھایا ہیبت و جلال روئے انور سے ظاہر تھا ارشاد فرمایا: “فرشتے ہم سے یہ کہتے ہیں کہ “ایک بار اس نے ہم کو دیکھا تھا اور دل میں نیک گمان لایا تھا اس وجہ سے بخش دیا گیا۔” پھر جو اس کی قبر پر جاکر دیکھا تو فریاد و بکا کی آواز آنا بالکل بند ہوگئی۔(الطبقات الکبریٰ ، منهم عبدالقادر جيلاني، ج۱، ص۱۷۹، وبهجة الاسرار، ذکر فضل اصحابه و بشراهم، ص۱۹۴)
(۲) حضورِ غوثِ پاک سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں ایک جوان حاضر ہوا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عرض کرنے لگا کہ “میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے میں نے آج رات ان کو خواب میں دیکھا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ عذاب قبر میں مبتلا ہیں انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں جاؤ اور میرے لئے ان سے دعا کا کہو۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس نوجوان سے فرمایا: “کیا وہ میرے مدرسہ کے قریب سے گزرا تھا؟” نوجوان نے کہا: “جی ہاں۔” پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خاموشی اختیار فرمائی ۔ پھر دوسرے روز اس کا بیٹا آیا اور کہنے لگا کہ’’ میں نے آج رات اپنے والد کو سبزحلہ زیب تن کیے ہوئے خوش و خرم دیکھا ہے۔‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ’’ میں عذاب قبر سے محفوظ ہوگیا ہوں اور جو لباس تودیکھ رہا ہے وہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی برکت سے مجھے پہنچایا گیا ہے پس اے میرے بیٹے! تم ان کی بارگاہ میں حاضری کو لازم کرلو۔پھر حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی نے فرمایا: “میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ “میں اس مسلمان کے عذاب میں تخفیف کروں گا جس کا گزر(تمہارے) مدرسۃ المسلمین پرہو گا۔”(بهجة الاسرار، ذکر اصحابه وبشراهم، ص۱۹۴)
حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے زمانۂِ مبارکہ میں ایک بہت ہی گنہگار شخص تھا لیکن اس کے دل میں سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی محبت ضرور تھی، اس کے مرنے کے بعد جب اس کو دفن کیا گیا اور قبر میں جب منکر نکیر نے سوالات کئے تو منکر نکیر کو رب قدیر عزوجل کی بارگاہِ عالیہ سے ندا آئی: “اگرچہ یہ بندہ فاسقوں میں سے ہے مگر اس کو میرے محبوب ِ صادق سید عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ذات سے محبت ہے پس اسی سبب سے میں نے اس کی مغفرت کردی اور حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی محبت اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے حسن اعتقاد کی وجہ سے اس کی قبر کو وسیع کردیا۔‘‘(سيرت غوث الثقلين رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۸۸)
بغداد شریف کے محلہ باب الازج کے قبرستان میں ایک قبر سے مردہ کے چیخنے کی آواز سنائی دینے کے متعلق لوگوں نے حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا :’’کیا اس قبر والے نے مجھ سے خرقہ پہنا ہے؟” لوگوں نے عرض کیا : “حضور والا! اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔” پھر آپ نے پوچھا کہ “اس نے کبھی میری مجلس میں حاضری دی تھی؟” لوگوں نے عرض کیا: “بندہ نواز! اس کا بھی ہمیں علم نہیں۔” اس کے بعد آپ نے پوچھا کہ “کیا اس نے میرے پیچھے نماز پڑھی ہے؟” لوگوں نے عرض کیا : “کہ ہم اس کے متعلق بھی نہیں جانتے۔” تو آپ نے ارشاد فرمایا: “المفرط اولی بالخسارۃ یعنی بھولا ہوا شخص ہی خسارہ میں پڑتا ہے ۔ اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مراقبہ فرمایا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چہرہ مبارک سے جلال، ہیبت اور وقار ظاہر ہونے لگا، آپ نے سرمبارک اٹھا کر فرمایا کہ ’’فرشتوں نے مجھے کہا ہے: ’’اس شخص نے آپ کی زیارت کی ہے اور آپ سے حسن ظن اور محبت رکھتا تھا تو اللہ عزوجل نے آپ کے سبب اس پر رحم فرما دیا ہے۔” اس کے بعد اس قبر سے کبھی بھی آواز نہ سنائی دی۔”(بهجة الاسرار، ذکر فضل اصحابه و بشراهم، ص۱۹۴)
ایک بی بی سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں اپنا بیٹا چھوڑ گئیں کہ “اس کا دل حضور سے گرویدہ ہے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس کی تربیت فرمائیں۔” آپ نے ا سے قبول فرما کر مجاہدے پر لگا دیا اور ایک روز ان کی ماں آئیں دیکھا لڑکا بھوک اور شب بیداری سے بہت کمزور اور زرد رنگ ہوگیا ہے اور اسے جو کی روٹی کھاتے دیکھا جب بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئیں تو دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے ایک برتن میں مرغی کی ہڈیاں رکھی ہیں جسے حضور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تناول فرمایا تھا، عرض کی : “اے میرے مولیٰ ! حضور تو مرغی کھائیں اور میرا بچہ جو کی روٹی۔” یہ سن کر حضور پرنور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا دست اقدس ان ہڈیوں پر رکھا اور فرمایا:“قُوْمِيْ بِاِذْنِ اللّٰهِ الَّذِيْ يُحْيِی الْعِظَامَ وَ هِيَ رَمِيْم” یعنی جی اُٹھ اس اللہ عزوجل کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمائے گا۔ یہ فرمانا تھا کہ مرغی فورا ً زندہ صحیح سالم کھڑی ہو کر آواز کرنے لگی، حضور اقدس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: “جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائے گا تو جو چاہے کھائے۔‘‘( بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه … الخ، ص۱۲۸)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دعا کی برکت : حضرت شیخ صالح ابوالمظفر اسماعیل بن علی حمیری زریرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا شیخ علی بن ہیتمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب بیمار ہوتے تو کبھی کبھی میری زمین کی طرف جو کہ زریران میں تھی تشریف لاتے اور وہاں کئی دن گزارتے ایک دفعہ آپ وہیں بیمار ہوگئے تو ان کے پاس میرے غوث صمدانی، قطب ربانی ، شیخ سیدعبدالقادر جیلانی قدس سرہ النور انی بغداد سے تیمارداری کے لئے تشریف لائے ، دونوں میری زمین پر جمع ہوئے، اس میں دو کھجور کے درخت تھے جو چار برس سے خشک تھے اور انہیں پھل نہیں لگتا تھا ہم نے ان کو کاٹ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک کے نیچے وضو کیا اور دوسرے کے نیچے دو نفل ادا کیے تو وہ سبز ہوگئے اور ان کے پتے نکل آئے اور اسی ہفتہ میں ان کا پھل آگیا حالا نکہ وہ کھجوروں کے پھل کا وقت نہیں تھا میں نے اپنی زمین سے کچھ کھجوریں لے کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر کر دیں آپ نے اس میں سے کھائیں اور مجھ سے کہا: “اللہ عزوجل تیری زمین، تیرے درہم ، تیرے صاع اور تیرے دودھ میں برکت دے۔حضرت شیخ اسماعیل بن علی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “میری زمین میں اس سال کی مقدار سے دوسے چار گنا پیدا ہونا شروع ہوا، اب میرا یہ حال ہے کہ جب میں ایک درہم خرچ کرتا ہوں تو اس سے میرے پاس دوسے تین گنا آجاتا ہے اور جب میں گندم کی سو (۱۰۰) بوری کسی مکان میں رکھتا ہوں پھر اس میں سے پچاس بوری خرچ کر ڈالتا ہوں اور باقی کو دیکھتا ہوں تو سو بوری موجود ہوتی ہے میرے مویشی اس قدر بچے جنتے ہیں کہ میں ان کا شمار بھول جاتا ہوں اور یہ حالت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی برکت سے اب تک باقی ہے۔”(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه … الخ، ص۹۱)
حضرت شیخ صالح ابوالمظفر اسماعیل بن علی حمیری زریرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا شیخ علی بن ہیتمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب بیمار ہوتے تو کبھی کبھی میری زمین کی طرف جو کہ زریران میں تھی تشریف لاتے اور وہاں کئی دن گزارتے ایک دفعہ آپ وہیں بیمار ہوگئے تو ان کے پاس میرے غوث صمدانی، قطب ربانی ، شیخ سیدعبدالقادر جیلانی قدس سرہ النور انی بغداد سے تیمارداری کے لئے تشریف لائے ، دونوں میری زمین پر جمع ہوئے، اس میں دو کھجور کے درخت تھے جو چار برس سے خشک تھے اور انہیں پھل نہیں لگتا تھا ہم نے ان کو کاٹ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک کے نیچے وضو کیا اور دوسرے کے نیچے دو نفل ادا کیے تو وہ سبز ہوگئے اور ان کے پتے نکل آئے اور اسی ہفتہ میں ان کا پھل آگیا حالا نکہ وہ کھجوروں کے پھل کا وقت نہیں تھا میں نے اپنی زمین سے کچھ کھجوریں لے کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر کر دیں آپ نے اس میں سے کھائیں اور مجھ سے کہا: “اللہ عزوجل تیری زمین، تیرے درہم ، تیرے صاع اور تیرے دودھ میں برکت دے۔”حضرت شیخ اسماعیل بن علی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “میری زمین میں اس سال کی مقدار سے دوسے چار گنا پیدا ہونا شروع ہوا، اب میرا یہ حال ہے کہ جب میں ایک درہم خرچ کرتا ہوں تو اس سے میرے پاس دوسے تین گنا آجاتا ہے اور جب میں گندم کی سو (۱۰۰) بوری کسی مکان میں رکھتا ہوں پھر اس میں سے پچاس بوری خرچ کر ڈالتا ہوں اور باقی کو دیکھتا ہوں تو سو بوری موجود ہوتی ہے میرے مویشی اس قدر بچے جنتے ہیں کہ میں ان کا شمار بھول جاتا ہوں اور یہ حالت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی برکت سے اب تک باقی ہے۔”(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه … الخ، ص۹۱)
حضرت ابو عبداللہ محمد بن ابوالعباس موصلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ “ہم ایک رات اپنے شیخ عبدالقادر جیلانی، غوث صمدانی، قطب ربانی قدس سرہ النورانی کے مدرسہ بغداد میں تھے اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں بادشاہ المستنجد باللہ ابوالمظفر یوسف حاضر ہوا اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سلام کیا اور نصیحت کا خواست گار ہوا اور آپ کی خدمت میں دس تھیلیاں پیش کیں جو دس غلام اٹھائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا: “میں ان کی حاجت نہیں رکھتا۔”اور قبول کرنے سے انکار فرما دیا اس نے بڑی عاجزی کی، تب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک تھیلی اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی اور دوسری تھیلی بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دونوں تھیلیوں کو ہاتھ سے دبا کر نچوڑا کہ وہ دونوں تھیلیاں خون ہوکر بہہ گئیں، آپ نے فرمایا: ’’اے ابوالمظفر! کیا تمہیں اللہ عزوجل کا خوف نہیں کہ لوگوں کا خون لیتے ہو اور میرے سامنے لاتے ہو۔” وہ آپ کی یہ بات سن کر حیرانی کے عالم میں بے ہوش ہو گیا۔پھر حضرت سیدنا حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: “اللہ عزوجل کی قسم! اگر اس کے حضور نبی پاک، صاحب لولاک ، سیاح افلاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے رشتے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں خون کو اس طرح چھوڑتا کہ اس کے مکان تک پہنچتا۔”(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه …الخ، ص۱۲۰)
راوی کا قول ہے کہ میں نے خلیفہ کو ایک دن حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں دیکھا کہ عرض کر رہا ہے کہ “حضور میں آپ سے کوئی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں تا کہ میرا دل اطمینان پائے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: “تم کیا چاہتے ہو؟” اس نے کہا: “میں غیب سے سیب چاہتا ہوں۔” اور پورے عراق میں اس وقت سیب نہیں ہوتے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو دو سیب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ میں تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان میں سے ایک اس کو دیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو نہایت سفید تھا، اس سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی اور المستنجد نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو اس میں کیڑے تھے وہ کہنے لگا: “یہ کیا بات ہے میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ میں نہایت عمدہ سیب د یکھا؟” آپ نے فرمایا: “ابوالمظفر! تمہارے سیب کو ظلم کے ہاتھ لگے تو اس میں کیڑے پڑ گئے۔”(المرجع السابق، ص۱۲۱)
حضرت شیخ برگزیدہ ابوالحسن قرشی فرماتے ہیں کہ “میں اور شیخ ابوالحسن علی بن ہیتی حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں ان کے مدرسہ میں موجود تھے تو ان کے پاس ابو غالب فضل اللہ بن اسمعیل بغدادی ازجی سوداگر حاضر ہوا وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عرض کرنے لگا کہ:اے میرے سردار! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جدامجد حضور پرنور شافع یوم النشور احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ “جو شخص دعوت میں بلایا جائے اس کو دعوت قبول کرنی چاہئے۔” میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے گھر دعوت پر تشریف لائیں۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: “اگر مجھے اجازت ملی تو میں آؤں گا۔ “پھر کچھ دیر بعد آپ نے مراقبہ کر کے فرمایا : “ہاں آؤں گا”۔
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے خچر پر سوار ہوئے، شیخ علی نے آپ کی دائیں رکاب پکڑی اور میں نے بائیں رکاب تھامی اور جب اس کے گھر میں ہم آئے دیکھا تو اس میں بغداد کے مشائخ ،علماء اور معززین جمع ہیں، دسترخوان بچھایا گیا جس میں تمام شیریں اور ترش چیزیں کھانے کے لئے موجود تھیں اور ایک بڑا صندوق لایا گیا جو سربمہر تھا دو آدمی اسے اٹھائے ہوئے تھے اسے دسترخوان کے ایک طرف رکھ دیا گیا، تو ابو غالب نے کہا: “بسم اللہ! اجازت ہے۔” اس وقت حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مراقبہ میں تھے اور آپ نے کھانانہ کھایا اور نہ ہی کھانے کی اجازت دی توکسی نے بھی نہ کھایا، آپ کی ہیبت کے سبب مجلس والوں کا حال ایسا تھا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، پھر آپ نے شیخ علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ “وہ صندوق اٹھا لایئے۔” ہم اٹھے اور اسے اٹھایا تو وہ وزنی تھا ہم نے صندوق کو آپ کے سامنے لاکر رکھ دیا آپ نے حکم دیا کہ “صندوق کو کھولا جائے۔ہم نے کھولا تو اس میں ابو غالب کا لڑکا موجود تھا جو مادر زاد اندھا تھا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے کہا: “کھڑا ہو جا۔” ہم نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کہنے کی دیر تھی کہ لڑکا دوڑنے لگا اور بینا بھی ہوگیا اور ایسا ہوگیا کہ کبھی بیماری میں مبتلا نہیں تھا، یہ حال دیکھ کر مجلس میں شور برپا ہوگیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسی حالت میں باہر نکل آئے اور کچھ نہ کھایا۔
اس کے بعد میں شیخ ابو سعد قیلوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ “حضرت سید محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مادر زاد اندھے اور برص والوں کو اچھا کرتے ہیں اور خدا عزوجل کے حکم سے مردے زندہ کرتے ہیں۔‘‘(الف، بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه … الخ، ص۱۲۳)
مانگ کیا چاہتا ہے؟ : ایک دن میں حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت مجھے کچھ حاجت ہوئی تو میں فی الفور حاجت سے فراغت پاکر حاضر خدمت ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے فرمایا: “مانگ کیا چاہتا ہے؟” میں نے عرض کیاکہ “میں یہ چاہتا ہوں۔” اور میں نے چند امور باطنیہ کا ذکر کیا آپ نے فرمایا: “وہ امور لے لے۔” پھر میں نے وہ سب باتیں اسی وقت پالیں۔”(الف، بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه، ص۱۲۴)
ایک شخص حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں آیا اور عرض کرنے لگا کہ “میں اصبہان کا رہنے والا ہوں میری ایک بیوی ہے جس کو اکثر مرگی کا دورہ رہتا ہے اور اس پر کسی تعویذ کا اثر نہیں ہوتا۔‘‘ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی، غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’یہ ایک جن ہے جو وادی سراندیپ کا رہنے والا ہے، اُس کا نام خانس ہے اور جب تیری بیوی پر مرگی آئے تو اس کے کان میں یہ کہنا کہ ’’اے خانس! تمہارے لئے شیخ عبدالقادر جو کہ بغداد میں رہتے ہیں ان کا فرمان ہے کہ ’’آج کے بعد پھر نہ آناورنہ ہلاک ہو جائے گا۔” تو وہ شخص چلا گیا اور دس سال تک غائب رہا پھر وہ آیا اور ہم نے اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ “میں نے شیخ کے حکم کے مطابق کیا پھر اب تک اس پر مرگی کا اثر نہیں ہوا۔‘‘
جھاڑ پھونک کرنے والوں کا مشترکہ بیان ہے: ’’حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زندگی مبارک میں چالیس برس تک بغداد میں کسی پر مرگی کا اثر نہیں ہوا، جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وصال فرمایا تو وہاں مرگی کا اثر ہوا۔‘‘(الف، بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه، ص۱۴۰)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک دن منبر پر بیٹھے بیان فرما رہے تھے کہ بارش شروع ہوگئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’میں تو جمع کرتا ہوں اور (اے بادل) تو متفرق کر دیتا ہے۔‘‘ تو بادل مجلس سے ہٹ گیا اور مجلس سے باہر برسنے لگا راوی کہتے ہیں کہ’’ اللہ عزوجل کی قسم! شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ بارش ہم سے بند ہوگئی اور ہم سے دائیں بائیں برستی تھی اور ہم پر نہیں برستی تھی۔(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه …الخ، ص۱۴۷)
حضرت ابو عبداللہ محمد بن خضری کے والد فرماتے ہیں کہ ’’میں نے سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تیرہ برس خدمت کی ہے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں بہت سی کرامات دیکھی ہیں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک کرامت یہ بھی تھی کہ جب تمام طبیب کسی مریض کے علاج سے عاجز آجاتے تو وہ مریض آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں لایا جاتا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس مریض کے لئے دُعائے خیر فرماتے اور اس پر اپنا رحمت بھرا ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ عزوجل کے حکم سے صحت یاب ہوکر آپ کے سامنے کھڑا ہو جاتا تھا، ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں سلطان المستنجد کا قریبی رشتہ دار لایا گیا جو مرض استسقاء میں مبتلا تھا اس کو پیٹ کی بیماری تھی آپ نے اس کے پیٹ پر مبارک ہاتھ پھیرا تو وہ اللہ عزوجل کے حکم سے لاغر پیٹ ہونے کے باوجود کھڑا ہوگیا گویا کہ وہ پہلے کبھی بیمار ہی نہیں تھا۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه … الخ ص۱۵۳)
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں ابو المعالی احمد مظفر بن یوسف بغدادی حنبلی آئے اور کہنے لگے کہ ’’میرے بیٹے محمد کو پندرہ مہینے سے بخار آرہا ہے۔‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’تم جاؤ اور اس کے کان میں کہہ دو ’’اے ام ملدم! تم سے عبدالقادر (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں کہ ’’میرے بیٹے سے نکل کر حلہ کی طرف چلے جاؤ۔‘‘ ہم نے ابو المعالی سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’’میں گیا اور جس طرح مجھے شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حکم دیا تھا اسی طرح کہا تو اس دن کے بعد اس کے پاس پھر کبھی بخار نہیں آیا۔‘‘(المرجع السابق)
حضرت شیخ محی الدین حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں ابو حفص عمر بن صالح حدادی اپنی اونٹنی لے کر آیا اور عرض کیا کہ ’’میرا حج کا ارادہ ہے اور یہ میری اونٹنی ہے جو چل نہیں سکتی اور اس کے سوا میرے پاس کوئی اونٹنی نہیں ہے۔‘‘ پس آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کو ایک انگلی لگائی اور اس کی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھا وہ کہتا تھا کہ ’’اس کی حالت یہ تھی کہ تمام سواریوں سے آگے چلتی تھی حالانکہ وہ اس سے قبل سب سے پیچھے رہتی تھی۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعابشی من عجائب، ص۱۵۳)
حضرت شیخ ابو الفضل احمد بن صالح فرماتے ہیں کہ “میں حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ مدرسہ نظامیہ میں تھا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس فقہاء اور فقراء جمع تھے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے گفتگو کر رہے تھے اتنے میں ایک بہت بڑا سانپ چھت سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی گود میں آگرا تو سب حاضرین وہاں سے ہٹ گئے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ رہا، وہ آپ کے کپڑوں کے نیچے داخل ہوا اور آپ کے جسم پر سے گزرتا ہوا آپ کی گردن کی طرف سے نکل آیا اور گردن پر لپٹ گیا، اس کے باوجود آپ نے کلام کرنا موقوف نہ فرمایا اور نہ ہی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ سانپ زمین کی طرف اُترا اور آپ کے سامنے اپنی دُم پر کھڑا ہوگیا اور آپ سے کلام کرنے لگا آپ نے بھی اس سے کلام فرمایا جس کو ہم میں سے کوئی نہ سمجھا۔
پھروہ چل دیا تو لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا کہ ’’اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کیا کہا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے کیا کہا؟‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’اس نے مجھ سے کہا کہ ’’میں نے بہت سے اولیاء کرام کو آزمایا ہے مگر آپ جیسا ثابت قدم کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ میں نے اس سے کہا: ’’تم ایسے وقت مجھ پر گرے کہ میں قضا و قدر کے متعلق گفتگو کر رہا تھا اور تُو ایک کیڑا ہی ہے جس کو قضا حرکت دیتی ہے اور قدر سے ساکن ہو جاتا ہے۔‘‘ تو میں نے اس وقت ارادہ کیا کہ میرا فعل میرے قول کے مخالف نہ ہو۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعابشی من عجائب ، ص۱۶۸)
حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا ابو عبد الرزاق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد گرامی سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’میں ایک رات جامع منصور میں نماز پڑھتا تھاکہ میں نے ستونوں پر کسی شے کی حرکت کی آواز سنی پھر ایک بڑا سانپ آیا اور اس نے اپنا منہ میرے سجدہ کی جگہ میں کھول دیا، میں نے جب سجدہ کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ سے اس کو ہٹا دیا اور سجدہ کیا پھر جب میں التحیات کے لئے بیٹھا تو وہ میری ران پر چلتے ہوئے میری گردن پر چڑھ کر اس سے لپٹ گیا، جب میں نے سلام پھیرا تو اس کو نہ دیکھا۔
دوسرے دن میں جامع مسجد سے باہر میدان میں گیا تو ایک شخص کو دیکھا جس کی آنکھیں بلی کی طرح تھیں اورقد لمبا تھا تو میں نے جان لیا کہ یہ جن ہے اس نے مجھ سے کہا: ’’میں وہی جن ہوں جس کو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کل رات دیکھا تھا میں نے بہت سے اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو اس طرح آزمایا ہے جس طرح آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو آزمایا مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح ان میں سے کوئی بھی ثابت قدم نہیں رہا، ان میں بعض وہ تھے جو ظاہر و باطن سے گھبرا گئے ، بعض وہ تھے جن کے دل میں اضطراب ہوا اور ظاہر میں ثابت قدم رہے، بعض وہ تھے کہ ظاہر میں مضطرب ہوئے اور باطن میں ثابت قدم رہے لیکن میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا کہ آپ نہ ظاہر میں گھبرائے اورنہ ہی باطن میں۔‘‘ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ ’’آپ مجھے اپنے ہاتھ پر توبہ کروائیں۔‘‘ میں نے اسے توبہ کروائی۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص ۱۶۸)
حضرت سیدنا عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’میں ہمدان میں ایک شخص سے ملا جو دمشق کارہنے والا تھا اس کا نام ’’ظریف‘‘ تھا ان کا کہناہے کہ ’’میں بشر قرظی کو نیشاپور کے راستے میں ملا۔۔یا۔۔ یہ کہا کہ خوارزم کے راستے میں ملا، اس کے ساتھ شکر کے چودہ اونٹ تھے اس نے مجھے بتایا کہ ہم ایسے جنگل میں اترے جو اس قدر خوفناک تھا کہ اس میں خوف کے مارے بھائی بھائی کے ساتھ نہیں ٹھہر سکتا تھا جب ہم نے شب کی ابتداء میں گٹھڑیوں کو اٹھایا تو ہم نے چار اونٹوں کو گم پایا جو سامان سے لدے ہوئے تھے میں نے انہیں تلاش کیا مگر نہ پایا قافلہ تو چل دیا اور میں اپنے اونٹوں کو تلاش کرنے کے لئے قافلے سے جدا ہوگیا، ساربان نے میری امداد کی اور میرے ساتھ ٹھہر گیا، ہم نے ان کو تلاش کیا لیکن کہیں نہ پایا ۔جب صبح ہوئی تو مجھے حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا فرمان یاد آیا کہ’’ اگرتُو سختی میں پڑے تو مجھ کو پکارنا تو تجھ سے مصیبت دور ہو جائے گی۔‘‘(میں نے یوں پکارا) اے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! میرے اونٹ گم ہوگئے، اے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! میرے اونٹ گم ہوگئے ۔‘‘پھر میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو صبح ہوچکی تھی جب روشنی ہوگئی تو میں نے ایک شخص کو ٹیلے پر دیکھا جس کے کپڑے انتہائی سفید تھے اس نے مجھ کو اپنی آستین سے اشارہ کیا کہ ’’اوپر آؤ۔‘‘ جب ہم ٹیلے پر چڑھے تو کوئی شخص نظر نہ آیا مگر وہ چاروں اونٹ ٹیلے کے نیچے جنگل میں بیٹھے تھے ہم نے ان کو پکڑ لیا اور قافلے سے جاملے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه ،ص۱۹۶)
حضرت امام شیخ ابو البقا مکبری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’میں ایک روز حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا، میں پہلے کبھی حاضرنہ ہوا تھا اور نہ ہی کبھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام سنا تھا، میں نے دل میں کہا کہ ’’اس مجلس میں حاضر ہو کر اس عجمی کا کلام سنوں؟‘‘ جب میں مدرسہ میں داخل ہوا اور دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام شروع ہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا کلام موقوف فرما دیااور فرمایا: ’’اے آنکھوں اور دل کے اندھے! تو اس عجمی کے کلام کو کیا سنے گا؟‘‘ تو میں نہ رہ سکا یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے منبر کے قریب پہنچ گیا پھر میں نے اپنا سر کھولا اور بارگاہِ غوثیت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں عرض کیا: ’’یا حضرت! مجھے خرقہ پہنائیں۔‘‘ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے خرقہ پہنا کر ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللہ ! اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے تمہارے انجام کی خبر نہ دی ہوتی تو تم ہلاک ہو جاتے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۲۱۱)
حضرت شیخ ابو نصر موسیٰ بن شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے ارشاد فرمایا: “میں اپنے ایک سفر میں صحرا کی طرف نکلا اور چند دن وہاں ٹھہرا مگر مجھے پانی نہیں ملتا تھا جب مجھے پیاس کی سختی محسوس ہوئی تو ایک بادل نے مجھ پر سایہ کیا اور اُس میں سے مجھ پربارش کے مشابہ ایک چیز گری، میں اس سے سیراب ہوگیا پھر میں نے ایک نور دیکھا جس سے آسمان کا کنارہ روشن ہوگیا اور ایک شکل ظاہر ہوئی جس سے میں نے ایک آواز سنی: ’’اے عبدالقادر! میں تیرا رب ہوں اور میں نے تم پر حرام چیزیں حلال کر دی ہیں، تو میں نے اعوذ بالله من الشيطٰن الرجيم پڑھ کر کہا: ’’اے شیطان لعین ! دور ہو جا۔‘‘ تو روشن کنارہ اندھیرے میں بدل گیا اور وہ شکل دھواں بن گئی پھر اس نے مجھ سے کہا :’’اے عبدالقادر! تم مجھ سے اپنے علم، اپنے رب عزوجل کے حکم اور اپنے مراتب کے سلسلے میں سمجھ بُوجھ کے ذریعے نجات پاگئے اور میں نے ایسے سَتّر (۷۰) مشائخ کو گمراہ کر دیا ۔‘‘ میں نے کہا: ’’یہ صرف میرے رب عزوجل کا فضل و احسان ہے۔‘‘ شیخ ابو نصر موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ ’’آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کس طرح جانا کہ وہ شیطان ہے؟‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:’’اُس کی اِس بات سے کہ’’ بے شک میں نے تیرے لئے حرام چیزوں کو حلال کر دیا۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته مما يدل علي قدم راسخ، ص۲۲۸)
حضرت شیخ ابو محمد الجونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک روز میں حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت میں فاقہ کی حالت میں تھا اور میرے اہل و عیال نے بھی کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سلام عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا: ’’اے الجونی! بھوک اللہ عزوجل کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اس کو عطا فرما دیتا ہے۔‘‘(قلائدالجواهر، ص۵۷)
حضرت شیخ ابو القاسم عمر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’جو کوئی مصیبت میں مجھ سے فریاد کرے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کردوں گا اور جو کوئی میرے وسیلے سے اللہ عزوجل سے اپنی حاجت طلب کرے گا تو اللہ عزوجل اس کی حاجت کو پورا فرما دے گا۔(بهجة الاسرار، ذکر فضل اصحابه و بشراهم، ص۱۹۷)
ایک عورت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مرید ہوئی، اس پر ایک فاسق شخص عاشق تھا، ایک دن وہ عورت کسی حاجت کے لئے باہرپہاڑ کے غار کی طرف گئی تو اس فاسق شخص کو بھی اس کا علم ہوگیا تو وہ بھی اس کے پیچھے ہولیا حتیٰ کہ اس کو پکڑ لیا، وہ اس کے دامن عصمت کو ناپاک کرنا چاہتا تھا تو اس عورت نے بارگاہِ غوثیہ میں اس طرح استغاثہ کیا:
الغیاث یاغوث اعظم الغیاث یاغوث الثقلین
الغیاث یاشیخ محی الدین الغیاث یاسیدی عبدالقادر
اس وقت حضورسیدی غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے مدرسہ میں وضو فرما رہے تھے آپ نے اس کی فریاد سن کر اپنی کھڑاؤں (لکڑی کے بنے ہوئے جوتے) کو غار کی طرف پھینکا وہ کھڑاویں اس فاسق کے سر پر لگنی شروع ہوگئیں حتیٰ کہ وہ مرگیا، وہ عورت آپ کی نعلین مبارک لے کر حاضرِ خدمت ہوئی اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں سارا قصہ بیان کردیا۔(تفريح الخاطر،ص۳۷)
حضرت ابوالحسن علی الازجی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیمار ہوئے تو حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اُن کے گھر ایک کبوتری اور ایک قمری کو بیٹھے ہوئے دیکھا، حضرت ابوالحسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عرض کیا: ’’حضور والا(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)! یہ کبوتری چھ مہینے سے انڈے نہیں دے رہی اور قمُری (فاختہ) نو مہینے سے بولتی نہیں ہے تو حضورِ غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کبوتری کے پاس کھڑے ہو کر اس سے فرمایا: ’’ اپنے مالک کو فائدہ پہنچاؤ۔‘‘ اور قمری سے فرمایا کہ ’’اپنے خالق عزوجل کی تسبیح بیان کرو۔‘‘ تو قمری نے اسی دن سے بولنا شروع کر دیا اور کبوتری عمر بھر انڈے دیتی رہی۔(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعابشي من عجائب، ص۱۵۳)
(۱) حضرت شیخ ابو سعید قیلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ القوی نے فرمایا: ’’حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اللہ عزوجل کے اذن سے مادر زاد اندھوں اور برص کے بیماروں کو اچھا کرتے ہیں اور مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔(بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۲۴)
(۲) شیخ خضر الحسینی الموصلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں تقریبا ۱۳ سال تک رہا، اس دوران میں نے آپ کے بہت سے خوارق و کرامات کو دیکھا ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس مریض کو طبیب لاعلاج قرار دیتے تھے وہ آپ کے پاس آکر شفایاب ہو جاتا،آپ اس کے لئے دعاء صحت فرماتے اور اس کے جسم پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرتے تو اللہ عزوجل اسی وقت اس مریض کو صحت عطا فرما دیتا۔(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعابشي من عجائب، ص۱۴۷)
ایک دفعہ دریائے دجلہ میں زور دار سیلاب آگیا، دریا کی طغیانی کی شدت کی وجہ سے لوگ ہراساں اور پریشان ہوگئے اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مدد طلب کرنے لگے حضرت نے اپنا عصاء مبارک پکڑا اور دریا کی طرف چل پڑے اور دریا کے کنارے پر پہنچ کر آپ نے عصاء مبارک کو دریا کی اصلی حد پر نصب کر دیا اور دریا کو فرمایا کہ ’’بس یہیں تک۔‘‘ آپ کا فرمانا ہی تھا کہ اسی وقت پانی کم ہونا شروع ہوگیا اور آپ کے عصاء مبارک تک آگیا۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعابشی من عجائب، ص۱۵۳)
حضرت شاہ ابو المعالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں ایک شخص نے حضرت سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر عرض کیا: ’’آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس دربار میں حاجتیں پوری ہوتی ہیں اوریہ نجات پانے کی جگہ ہے پس میں اس بارگاہ میں ایک لڑکا طلب کرنے کی التجا کرتا ہوں۔‘‘ تو سرکارِ بغداد، حضورِ غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:’’میں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کردی ہے کہ اللہ عزوجل تجھے وہ چیز عطا فرمائے جو تو چاہتا ہے۔‘‘وہ آدمی روزانہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس شریف میں حاضر ہونے لگا، قادر مطلق کے حکم سے اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی، وہ شخص لڑکی کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: ’’حضور والا (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)! ہم نے تو لڑکے کے متعلق عرض کیا تھا اور یہ لڑکی ہے۔‘‘ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’اس کو لپیٹ کر اپنے گھر لے جاؤ اورپھر پردہ غیب سے قدرت کا کرشمہ دیکھو۔‘‘ تو وہ حسب ارشاد اس کو لپیٹ کر گھر لے آیا اور دیکھا تو قدرت الٰہی عزوجل سے بجائے لڑکی کے لڑکا پایا۔‘‘(تفريح الخاطر، ص۱۸)
ابو السعود الحریمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ ابوالمظفرحسن بن نجم تاجر نے شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: ’’حضور والا! میرا ملک شام کی طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے اور میرا قافلہ بھی تیار ہے، سات سو دینار کا مالِ تجارت ہمراہ لے جاؤں گا۔‘‘ تو شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’اگر تم اس سال سفر کرو گے تو تم سفر میں ہی قتل کردیئے جاؤ گے اور تمہارا مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا۔ ‘‘وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد سن کر مغموم حالت میں باہر نکلا توحضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملاقات ہوگئی اس نے شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد سنایا تو آپ نے فرمایا اگر تم سفر کرنا چاہتے ہو تو جاؤ تم اپنے سفر سے صحیح و تندرست واپس آؤ گے، میں اس کا ضامن ہوں۔‘‘ آپ کی بشارت سن کر وہ تاجر سفرپر چلا گیا اور ملک شام میں جاکر ایک ہزار دینار کا اس نے اپنا مال فروخت کیا اس کے بعد وہ تاجر اپنے کسی کام کے لئے حلب چلاگیا، وہاں ایک مقام پر اس نے اپنے ہزار دینار رکھ دیئے اوررکھ کر دیناروں کو بھول گیا اور حلب میں اپنی قیام گاہ پر آگیا، نیند کا غلبہ تھا کہ آتے ہی سوگیا، خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ عرب بدوؤں نے اس کا قافلہ لوٹ لیا ہے اور قافلے کے کافی آدمیوں کو قتل بھی کر دیا ہے اور خود اس پر بھی حملہ کر کے اس کو مار ڈالا ہے، گھبرا کر بیدار ہوا تو اسے اپنے دینار یاد آگئے فورا ً دوڑتا ہوا اس جگہ پر پہنچا تو دینار وہاں ویسے ہی پڑے ہوئے مل گئے، دینار لے کر اپنی قیام گاہ پر پہنچا اور واپسی کی تیاری کرکے بغداد لوٹ آیا ۔ جب بغداد شریف پہنچا تو اس نے سوچا کہ پہلے حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ وہ عمر میں بڑے ہیں یا حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میرے سفر کے متعلق جو فرمایا تھا بالکل درست ہوا ہے اسی سوچ و بچار میں تھا کہ حسن اتفاق سے شاہی بازارمیں حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس کی ملاقات ہوگئی تو آپ نے اس کو ارشاد فرمایا کہ ’’پہلے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری دوکیوں کہ وہ محبوب سبحانی ہیں انہوں نے تمہارے حق میں سَتَّر(۷۰) مرتبہ دعا مانگی ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے تمہارے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرما دیا اور مال کے ضائع ہونے کو بھول جانے سے بدل دیا۔ جب تاجر غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایاکہ ’’جو کچھ شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شاہی بازار میں تجھ سے بیان فرمایا ہے بالکل ٹھیک ہے کہ میں نے سَتَّر(۷۰) مرتبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہارے لئے دعا کی کہ وہ تمہارے قتل کے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرمادے اور تمہارے مال کے ضائع ہونے کو صرف تھوڑی دیر کے لئے بھول جانے سے بدل دے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرفصول من کلامه مرصعابشي من عجائب، ص۶۴)
ایک دن حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان فرما رہے تھے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کو نیند آگئی حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے اہل مجلس سے فرمایا خاموش رہو اور آپ منبر سے نیچے اتر آئے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے با ادب کھڑے ہوگئے اور ان کی طرف دیکھتے رہے ۔ جب شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خواب سے بیدار ہوئے تو حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان سے فرمایا کہ ’’آپ نے خواب میں تاجدار مدینہ، راحت قلب وسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’جی ہاں۔‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’میں اسی لئے بادب کھڑا ہوگیا تھا پھرآپ نے پوچھا کہ ’’نبی پاک،صاحب لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو کیا نصیحت فرمائی؟‘‘ تو کہاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری کو لازم کر لو۔‘‘ بعد ازیں لوگوں نے شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دریافت کیا کہ ’’حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کا کیا مطلب تھا کہ ’’میں اسی لئے با ادب کھڑا ہوگیا تھا۔‘‘ تو شیخ علی بن ہیتی علیہ رحمۃ اللہ الباری نے فرمایا: ’’میں جو کچھ خواب میں دیکھ رہا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کو بیداری میں دیکھ رہے تھے۔ ‘‘(بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشي من عجائب، ص۵۸)
اللہ عزوجل کی اطاعت کرو : حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے، اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اُس کا ادب کرنا چاہیے کیوں کہ اس کے تمام کام صحیح ودرست ہوتے ہیں، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت عطا فرمانے والا ہے، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا کچھ چھپا رکھا ہے، اس لئے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہیے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا ۔ بندے کا شجرِ ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے، شجرِ ایمانی کی پرورش ضروری ہے، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو، اسے (نیک اعمال کی) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجرِ ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہلِ ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکرِ ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلیٰ مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کر، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب العالمین عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو ۔(فتوح الغيب مع قلائد الجواهر، ص۴۴)
حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا فرمان عالی شان ہے :’’محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگا دے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹا کر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضلِ عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اِس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کردے گا، عطائے الٰہی عزوجل سے تُو راحت و سکون پائے گا اور اگر تُو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اورتجھ سے فضلِ خداوندی رُک جائے گا۔‘‘
تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ جب تک تُو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تَو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی، توحید، قضائے نفس ،محویت ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کرد ے تو تیرے دل میں اللہ تعالیٰ کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل،ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کرے گا۔
مزید فرماتے ہیں: تیرا نفس اور اعضاء غیر اللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں ۔(فتوح الغيب مع قلائد الجواهر، ص۱۰۳)
شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا ارشاد مبارک ہے: ’’جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ، اور دنیا و آخرت کی آرزؤوں سے فنا ہو جاتا ہے تَو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تَو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کردیتا ہے ۔پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبیر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے۔(فتوح الغيب مع قلائد الجواهر، المقاله السادسة والخمسون، ص۱۰۰)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعتِ مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : وَمَآاٰتٰكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَانَهٰكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۔
ترجمہ : اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔(پ۲۸،الحشر:۷)
کیونکہ سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہیے، اس طرح تُو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہوجائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کیے جائیں گے اللہ عزوجل تیری حفاظت فرمائے گا، موا فقتِ خداوندی حاصل ہوگی۔
اللہ عزوجل تجھے گناہوں سے محفوظ فرمائے گا اور تجھے اپنے فضل عظیم سے استقامت عطا فرمائے گا، تجھے دین کے تقاضوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہئیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہئیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریعت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہئیے اور ان دنیوی نعمتوں سے تَو حضور تاجدارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حدودِ شرع میں رہ کر فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی ہے چنانچہ سرکارِ دوجہان، رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’خوشبو اور عورت مجھے محبوب ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘(مشکوٰة المصابيح، کتاب الرقائق، الفصل الثالث، الحديث۵۲۶۱،ج۲،ص۲۵۸)
لہٰذا ان نعمتوں پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا واجب ہے، اللہ عزوجل کے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ تعالیٰ کو نعمتِ الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اوروہ اس کو اللہ عزوجل کی حدود میں رہ کر استعمال فرماتے ہیں، انسان کے جسم و روح کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ احکامِ شریعت کی تعمیل ہوتی رہے اور اس میں سیرتِ انسانی کی تکمیل جاری و ساری رہتی ہے۔(فتوح الغيب، مترجم، ص۷۲)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالیٰ سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادہ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتۂِ تقدیرنے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس لیے قبول ہوجاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے۔(فتوح العيوب مع قلائد الجواهر، المقالة الثامنة والستون، ص۱۱۵)
اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اورجگہ ارشاد فرمایا: ’’اللہ عزوجل پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں ہے، اللہ عزوجل جو چاہتا کرتا ہے، جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کر دے، عرش سے فرش اور تحت الثرٰی تک جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ عزوجل کے قبضے میں ہے، ساری مخلوق اسی کی ہے، ہر چیز کا خالق وہ ہی ہے، اللہ عزوجل کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے تو ان سب کے با وجود تُو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہے؟‘‘
اللہ عزوجل جسے چاہے اور جس طرح چاہے حکومت و سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، اللہ عزوجل کی بہتری سب پر غالب ہے اور وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی عطا فرماتا ہے۔‘‘(فتوح الغيب، مترجم، ص۸۰)
حضور سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اور موجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الٰہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء وقدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالیٰ سے دنیا طلب نہ کر، اور آزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الٰہی عزوجل پر رضا مندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالیٰ نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظٖت کی دعا کر، کیونکہ تُو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے ،محتاجی و فقر فاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس حال میں صبح کروں گا آیا اس حال پر جس کو میری طبیعت ناپسند کرتی ہے ،یا اس حال پر کہ جس کو میری طبیعت پسند کرتی ہے، کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بھلائی اور بہتر ی کس میں ہے۔یہ بات اللہ تعالیٰ کی تدبیر پر رضا مندی اس کی پسندیدگی اور اختیار اور اس کی قضاء پر اطمینان و سکون ہونے کے سبب فرمائی ۔(فتوح الغيب مع قلائد الجوهر، المقالة التاسعة والستون، ص۱۱۷)
ایک دفعہ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ ’’محبت کیا ہے؟‘‘ تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’محبت، محبوب کی طرف سے دل میں ایک تشویش ہوتی ہے پھر دنیا اس کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے انگوٹھی کا حلقہ یا چھوٹا سا ہجوم، محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے، عاشق ایسے محوہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدہ کے سوا کسی چیز کا ان ہیں ہوش نہیں، وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب (یعنی محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے ،وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے اور اُس کے ذکر کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علی قدم راسخ، ص۲۲۹)
حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے توَکُّل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’دل اللہ عزوجل کی طرف لگا رہے اور اس کے غیر سے الگ رہے۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا کہ ’’توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ سے جھانکنا اور’’مذہب معرفت‘‘ میں دل کے یقین کی حقیقت کا نام اعتقاد ہے کیوں کہ وہ لازمی امور ہیں ان میں کوئی اعتراض کرنے والانقص نہیں نکال سکتا۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ … ص۲۳۲)
حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دنیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’دنیا کو اپنے دل سے مکمل طور پر نکال دے پھر وہ تجھے ضرریعنی نقصان نہیں پہنچائے گی۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ، ص۲۳۳)
سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اوراسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ، ص۲۳۴)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’صبر یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے وقت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اُس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ، ص۲۳۴)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صدق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ :
(۱)…اقوال میں صدق تو یہ ہے کہ دل کی موافقت قول کے ساتھ اپنے وقت میں ہو۔
(۲)…اعمال میں صدق یہ ہے کہ اعمال اس تصور کے ساتھ بجالائے کہ اللہ عزوجل اس کو دیکھ رہاہے اور خود کو بھول جائے ۔
(۳)…احوال میں صدق یہ ہے کہ طبیعتِ انسانی ہمیشہ حالت ِحق پر قائم رہے اگرچہ دشمن کاخوف ہویادوست کا ناحق مطالبہ ہو۔‘‘(بهجة الاسرار، ص۲۳۵)
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ وفا کیا ہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’وفا یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں میں اللہ عزوجل کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نہ تو دل میں اِن کے وسوسوں پر دھیان دے اور نہ ہی ان پر نظر ڈالے اور اللہ عزوجل کی حدود کی اپنے قول اور فعل سے حفاظت کرے، اُس کی رضا والے کاموں کی طرف ظاہر و باطن سے پورے طور پر جلدی کی جائے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته مما يدل علي قدم راسخ، ص۲۳۵)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’روح اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت میں مستغرق ہو جائے اور حق تعالیٰ کے لئے سچے طور پر غیر کی محبت دل سے نکال دے ۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ، ص۲۳۶)
حضرت محبوب سبحانی، قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے خوف کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’اس کی بہت سی قسمیں ہیں (۱) خوف … یہ گنہگاروں کو ہوتا ہے(۲)رہبہ … یہ عابدین کو ہوتا ہے (۳)خشیت …یہ علماء کو ہوتی ہے۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا: ’’گنہگار کا خوف عذاب سے، عابد کا خوف عبادت کے ثواب کے ضائع ہونے سے اور عالم کا خوف طاعات میں شرک خفی سے ہوتا ہے ۔
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’عاشقین کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفین کا خوف ہیبت و تعظیم سے ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے کیوں کہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور ان تمام اقسام کے حاملین جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پاجاتے ہیں۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ، ص۲۳۶)