حضرت شیخ محمود آفندی دامت برکاتہم العالیہ
- Admin
- Oct 12, 2021
حضرت شیخ محمود آفندی 1929ء میں پیدا ہوئے۔ آپؒ اپنے شیخ کے مشورے سے سرحدی علاقے سے اٹھ کر مرکزی شہر استنبول تشریف لے آئے، یہاں سلطان محمد فاتح سے منسوب علاقے "فاتح" میں "اسماعیل آغا" نامی علاقہ کا شہر کے پوش علاقوں میں شمار ہوتا تھا۔
اس میں شیخ الاسلام حضرت اسماعیل آغاآفندی رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد تھی جو خلافت عثمانیہ کے زمانے میں "شیخ الاسلام" کے لقب سے ملقب تھے۔
سلطان محمد فاتح کے زمانے میں قسطنطنیہ فتح ہوا تواس مسجد کے قریب ایک قدیم چرچ تھا جو عیسائی حضرات کے نزدیک آیا صوفیا کے بعد ایک عظیم حیثیت رکھتا تھا۔
عیسائیوں کے دو مشہور فرقوں میں سے کیتھولک فرقے کا مرکزی مقام "ویٹی کن سٹی" روم میں واقع سینیٹ پیٹر کلیسا ہے۔ آرتھوڈوکس فرقے کے نزدیک یہی مقام اس چرچ کو حاصل تھا، حضرت شیخ محمود آفندیؒ جب اس محلے میں آئے تو آپؒ کو بیک وقت دو چیلنج درپیش تھے۔
ایک تو یہ کہ آرتھوڈوکس فرقے کے عیسائی اس چرچ کے گرد واقع تمام عمارات خريد کر ویٹی کن سٹی کے متوازی عیسائی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس غرض کے لیے دنیا بھر میں موجود اس فرقے کے لوگوں نے تجوریوں کے منہ کھول رکھے تھے، یہ علاقہ گولڈن ہارن کے قریب شہرکے قیمتی علاقوں میں سے ایک تھا۔
دوسرا یہ کہ حضرتؒ کی جو مسجد تھی وہ گیارہویں صدی میں تعمیر کی گئی ایک تاریخی مسجد تھی، اس کے اندرونی ہال کو عین خانہ کعبہ کی اندرونی پیمائش کے عین مطابق بنایا گیا تھا اور یہ اپنے وقت کے شیخ الاسلام کی مسجد تھی لیکن سیکولرازم کی تباہ کاریاں کہ
آپؒ کو یہاں کام کرتے ہوئے 18 سال ہوگئے تھے، کوئ نمازی مسجد نہیں آتاتھا، گویا دوسرا چیلنج آپ ؒکو اندرونی طور پر پیش تھا کہ غیروں کی دست برد سے اپنی میراث بچانے کے ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کو کس طرح متوجہ کیاجائے کہ
اگر وہ مذہب چھوڑ بیٹھے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کے دوسرے مذاہب سے جوہم سے مکالمہ اور مقارنہ یا مقاربہ کے لیے بےچین رہتے ہیں، اپنا مذہب چھوڑ دیا ہے یا سیکولر کہلوانے کے بعد اپنے مذہبی منصوبوں سے دستبردار ہوچکے ہیں۔
وہ تو صبح شام اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں اور خطرہ ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کی طرح استنبول (اسلام بول) میں دوسرا "ویٹی کن سٹی" نہ بن جائے۔
حضرت ؒکے خلفاء فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ ؒنے اس مسجد میں 30 سال امامت کی، پہلے 18 سال تک کوئی مسجد نہیں آتاتھا، حضرتؒ خود گھر گھر جاتے اور محلے والوں سے کہتے "میں ہروقت مسجد میں ہوتا ہوں اگر کوئی کام پڑ جائے تو مجھے یاد رکھنا خادم کو ہرمشکل میں اپنے ساتھ حاضر پاؤگے"۔"
18سال بعد اللہ اللہ کرکے برف تڑخی، جمود پگھلا، شیخ کی توجہات اور دعائیں رنگ لائیں اور مسجد میں باجماعت نماز شروع ہوگئی، آج یہ عالم ہے کہ اس محلے میں کوئی گھرایسا نہیں جہاں سے داڑھی اور عمامہ کے مسنون حلیہ میں مرداور مکمل شرعی پردہ میں خاتون آجانہ رہے ہوں ۔حضرت ؒنے اپنے مریدوں کوتاکید کی کہ پورے علاقے پر کڑی نظر رکھیں، کوئ بھی مکان، جائداد بکتی ہوئ نظر آئے تو اسے خریدنے میں پہل کریں، مذکورہ چرچ کے قریب ایک اور مسجد تھی، حضرت ؒنے اس میں "مثنوی شریف" کا درس شروع کردیا رفتہ رفتہ یہ درس اتنا مقبول ہوا کہ اس مسجد کانام ہی مثنوی خانہ پڑگیا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ؒکو دونوں محاذوں پر کامیابی عطاکی آپ ؒکے اپنے مسلمان بھائی مسجد سے ایسے جڑے کہ اس کے ساتھ عظیم خانقاہ، مدرسہ اور فلاحی ادارہ تعمیر کرڈالا جو آج ملک بھر میں احیائے اسلام یا رجوع الی الاسلام کا استعارہ علامت سمجھا جاتا ہے۔
عیسائ حضرات قریب کی جگہیں کیا خریدتے، چرچ کو ہی تالا لگا کر بیچنے تک کی باتیں کرتے ہیں۔
پہلی مرتبہ 1306ہجری میں شیخ محمود ؒکے فرزند نے والد کی وفات کے بعد یہ تفسیرایک جلد میں طبع کرائی،اب یہ تفسیر دو جلدوں میں درالکتب العلمیہ بیروت نے شائع کی ہے۔یہ پوری تفسیر ہے۔
ترکی میں خلافت عثمانیہ کے پستی میں چلے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جس شخص سے تجدید و احیاء دین کا کام لیا وہ نقشبندی سلسلے کے شیخ محمود آفندی حفظہ اللہ ہیں۔رجب طیب اردگان بھی ان سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں اور اکثر و بیشتر انکی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔
شیخ محمود آفندیؒ کے محلہ کے چشم دید گواہ عیسی ٰمنصوری لکھتے ہیں :-
" اس محلہ میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا کہ گویا صدیوں پرانے دور کے خالص خانقاہی ماحول میں آ گئے ہیں ،لوگوں کا لباس ،حلیہ سب ہی متشرع ،خواتین بلکہ بچیاں تک پورے حجاب میں استنبول کے اس محلہ کی مسجد اوپر سے نیچے تک پوری طرح بھری ہوئی تھی اور تمام مصلی پوری ڈاڑھی اور شرعی لباس میں تھے۔بندہ چشم تصور میں صدیوں پرانے دور میں پہنچ گیا، جب ترکی میں اسلام کا غلبہ تھا اور ترکوں نے اسلام کا پرچم اٹھایا ہوا تھا.
آگے لکھتے ہیں :-
"آجکل تصوف کا انکار اور استہزاء ایک فیشن بن گیا ہے مگر ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ وسط ایشیاء میں کمیونزم کی کالی آندھی یا اتاترک کے جبر و استبداد کے طوفان کے سخت حالات میں ان قوموں کو صرف تصوف ہی نے اسلام پر قائم رکھا ،حقیقت یہ ہے کہ اگر تصوف کے سلسلے نہ ہوتے تو اندلس کی طرح ترکی سے بھی اسلام ختم ہو گیا ہوتا۔خانقاہوں نے اتاترک کے استبدادی دور میں بھی زیر زمین دینی و اخلاقی رہنمائی جاری رکھی ،ان سلاسل تصوف کے مشائخ نے اخلاقی، سماجی، تعلیمی میدانوں میں رہنمائی کی اور مثالی تعلیمی ادارے، اسلامی ہوسٹل، کارخانے نشر و اشاعت کے ادارے اور کمپنیاں قائم کیں، نقشبندی سلسلے کے رہنما شیخ سعید کردیؒ اور انکے دو سو کے قریب مریدین شہادت سے سرفراز ہوئے، ہزاروں گھر منہدم کیے گئے۔ آٹھویں دہائی میں جب نجم الدین أربكان نے بیت المقدس کی بازیابی کیلئے ریلی نکالی تو اتاترک کی فوج نے
تین ہزار سے زیادہ لوگوں کو تختہ دار پر چڑھا دیا اور بے شمار لوگوں کو جیل میں ٹھونس دیا، پھر 1980 میں ایک لاکھ تیس ہزار لوگوں کو جس میں بہت بڑی تعداد جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تھی، دینی ذہن رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا، انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا، جن میں استنبول و انقرہ یونیورسٹیوں اور دیگر کالجوں کے پروفیسروں کی بڑی تعداد شامل تھی، لیکن نورسی، نقشبندی، سلیمانیہ سلسلے برابر اپنا کام کرتے رہے۔
ترکی میں اسلامائزیشن میں روزبروز ترقی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ترکی کا امام خطیب سکول سسٹم بھی ہے ۔ مصطفی کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ترکی میں اس قدر اسلام مخالف مذموم کارنامے سرانجام دیئے جوتاریخ اسلام میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں ۔سقوط خلافت کے بعد اتاترک نے ترکی او رترک معاشرہ کو یورپ کے رنگ میں رنگنے کے لئے سب سے پہلے ان تمام چیزوں کو ختم کیا جن کا تعلق دین اسلام سے قران وحدیث سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تھا ۔چنانچہ سب سے پہلے ترکی کے آئین کو یکسر تبدیل کرکے اسے سیکولر بنایا گیا۔ اس کے یکے بعد دیگرے مسجد وں کو تالے لگوانا،مسجد آیا صوفیا کو میوزیم میں تبدیل کرنا ،آذان پر پابندی لگانا،پوری ترکی سے مدارس ومکاتب کو بند کروانا ، ترکی رسم الخط جو کہ عربی کے ساتھ مشابہت رکھتاتھا کو مکمل رومن انگلش کے ساتھ تبدیل کروانا، ملک کے آئین اور قانون کو سوفیصد سیکولر بناناجیسے سیاہ کارنامے قابل ذکرہیں۔
مصطفی کمال اتاترک کے سیکولرازم کے اثرات نے پورے ترکی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔ جس کا اندازا اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ پون صدی کا ایک طویل عرصہ بیت جانے اور اس عرصہ میں کئی محبان اسلام حکومتوں ، علماء،شیوخ تصوف،اور مختلف اسلام پسند تنظیموں کی انتھک محنت وکاوش کے باجود اس کے گاڑھے گئے سیکولرازم کے اثرات ابھی تک موجودہ ترکی میں کسی درجہ باقی ہیں ۔ ایسے حالا ت میں کلمہ اسلام اور اس کی د عوت کو باقی رکھنا ایک بہت ہی عظیم کام تھا۔
ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت جوگزشتہ دس بارہ سال سے برسر اقتدار ہے کہ دور میں ترکی ایک مرتبہ پھر خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کی طرف گامزن دکھائی دے رہاہے ۔ بالخصوص ایردوان حکومت کا اسرائیل کے حوالہ سے موقف کے بعد امت مسلمہ کے تجزیہ نگارطیب ایردوان کو امت مسلمہ کا حقیقی معنی میں امام وپیشوا کہنے کو حق بجانب سمجھتے ہیں ۔
بات ہماری چلی تھی ترکی میں امام خطیب سکولوں کے قیام کے حوالہ سے تو ترکی میں امام خطیب سکو ل کی ضرور ت اس لئے پیش آئی کہ اتاترک نے بام اقتدار سنبھالتے ہی پورے ترکی سے تمام مدارس دینیہ کو فوری طور پر بندکروادیا تھا۔علما ء کو جیل خانوں میں اور کچھ کو ملک بدر کردیا ۔ البتہ اسی سیکولرازم کے زمانہ میں ہی کچھ عظیم شخصیات انفرادی طورپر درس وتدریس،امربالمعروف کافریضۃ خفیہ طور پرادا کرتے رہے ۔ ان داعیان میں سے استنبو ل فاتح چہارشنبہ میں اسماعیل آغا کے شیخ المشائخ جناب شیخ محمود آفندی عوفی قدس سرہ کا نام سرفہرست ہے ۔اس کے علاوہ بدیع الزمان سعید نورسی کی تحریک رسالہ نور کے عنوان سے بھی ایک نمایا ں نام ہے ۔ ترکی میں اسی صورت حال کے ساتھ کئی سال گزرگئے تھے ۔ چونکہ اس سرزمین پرتقریباساڑھے چھے سوسال تک خلافت عثمانیہ کے قیام کے اثرات ،اور اور داعیان اسلام کی انفرادی محنتوں وکاوشوں کے نتیجہ میں سوسائٹی میں اسلام کے ساتھ قلبی لگاؤ کی ہلکی سی رمق باقی تھی۔ جس کی وجہ سے ہر آنے والے وقت میں اسلام کو کسی درجہ میں پڑھنا اور پڑھانا ہر نئی حکومت کو سوسائٹی کیلئے بنیادی فرائض شمار کئے جاتے تھے ۔ امام خطیب سکول کے قیام کے وقت ان سیکولر لابی کے عزائم فاسدہ یہ تھے کہ ترکی کا مذہبی ذہن رکھنے والے طبقہ کی نسل نو انہی سکولوں میں تعلیم حاصل کرے تاکہ یہ آگے حکومت کی مین سٹریم لائن میں نہ آسکیں ۔ چنانچہ1924میں ترک گرینڈ نیشنل اسمبلی میں توحیدی تدریسات کے نا م سے ایک قانون پاس کروایا جاتاہے ۔جس قانون کی روشنی میں امام خطیب مکتب کی ابتدا کی جاتی ہے ۔ 1930 تک یہ امام خطیب مکتب چلتے رہے لیکن معیا ر نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کا رجحان ان کی طرف خاطر خواہ نہ ہوسکا جس کی وجہ سے1930 میں یہ مکاتب بند کردیئے گئے۔ تقریبا 20 سال تک یہ مکاتب بندرہے ۔
اس کے بعد 10اکتومبر 1951سے دوبارہ نئے سرے سے ان کا آغاز امام خطیب سکول کے نام سے کیا گیا۔ 1970تک یہ سکول مڈل لیول تک چلتے رہے۔اور 70کی دہائی میں ہی انہیں باقاعدہ سے سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ۔اس کے بعد ان سکولز کو مزید ترقی دیتے ہوئے کالج کا درجہ دے دیا گیا ۔شروع شروع میں کالج سے فارغ ہونے والے طلباء کو یونیورسٹی میں ایڈمیشن کیلئے کافی مشکلات کاسامنا کرناپڑتا رہا۔ اس لئے کہ یونیورسٹی گرانٹس آف کمیشن کے ہاں امام خطیب سکول کی ڈگری قابل قبول نہ تھی ۔
90کی دہائی کے بعد ان سکولوں کومزیدمضبوط اورمربوط بنایا گیا اور بالخصوص ترکی کی موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان سکولوں کی تعلیم وتربیت کوانٹرنیشنل لیول کا بنادیا گیا ۔اس وقت پوری دنیا سے شائقین علم ترکی کے ان سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ انہیں ترک معاشرہ کی دینی حمیت کو بیدار کرنے ، مستقبل قریب یابعید میں ان سکولوں سے فارغ ہونے والے طلباکو ترکی کی مساجد میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دینے کے عزائم وارادے سے چلائے جانے لگا۔اسی ضرورت کومدنظر رکھتے ہوئے ان سکو لوں کا نصاب مرتب کیا گیا ۔جو کہ ابتدا ءمیں تقریبا نوے فیصد دینی مضامین پر مشتمل تھا جس میں قرآن ،حدیث ،فقہ سیرت،تاریخ ،عربی وغیرہ شامل تھیں ۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اور ترکی کے بدلتے حالات کے پیش نظر اس کے نصاب میں تبدیلیاں بھی کی جاتی رہیں۔ نصاب میں تبدیلی کرتے ہوئے دینی تعلیم کے پورشن کو بھی کم کیاجاتارہاہے ۔ اب موجود ہ صورت حال میں تقریبا چالیس فیصد دینی علوم اور ساٹھ فیصد عصری علوم شامل نصاب ہیں۔ چونکہ ا ن سکولز کا قیام ترکی میں دینی ضرور ت کوکسی حد تک پورا کرنے کی غرض سے بھی تھا اور یہ سکولزمدارس دینیہ کے قائم مقام بھی کام کررہے تھے اس وجہ سے بسااوقات سیکولر طبقہ کی سازشوں سے ان سکولوں کو مشکلات کا سامنابھی کرنا پڑا ۔
اس وقت یہ سکول تین تعلیمی مراحل میں کام کررہے ہیں ۔پہلامرحلہ پرائمری لیول او ردوسرا مڈل اورتیسرا کالج لیول کاہے ۔ آٹھویں کلاس سے بارہویں کلا س تک کو کالج کا مرحلہ کہاجاتاہے۔جو طلباء کالج کے بعد یونیورسٹی کی الہیات فکیلٹی میں جا کر مستقبل میں امامت و خطابت کی فیلڈ میں جانے کا ارادہ رکھتے ہوں تو وہ آٹھویں کے بعد کالج کے دورانیہ میں نصاب میں دینی مضامین کی مقدارزیادہ رکھتے ہیں ۔ اور جنہوں نے دیگر فیلڈ میڈیکل ،انجنیئرنگ وغیرہ میں جانا ہوتاہے تو وہ اسی حساب سے اپنے مضامین رکھواتے ہیں ۔گویا کہ آٹھویں تک تمام طرح کے طلبا اکٹھے ایک طرح کا نصاب پڑھتے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ کسی بھی شعبہ سے کوئی تعلق رکھنے والا ہواسے قرآن وحدیث کی بیسک نالج ضرور ہوتی ہے ۔
قرآن کریم تلاوت اچھے انداز میں کرنے کی صلاحیت ہرخاص وعام میں بہترین درجہ کی ہوتی ہے ۔ترکی کے موجودہ صدر جناب طیب ایردووان اسی امام خطیب سکول سے فارغ التحصیل ہیں ۔ ترکی میں اس وقت بیس ہزار سے زائدایسی مساجد ہیں جو وزارت مذہبی امور کے زیراہتمام چل رہی ہیں ان کے ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ائمہ وخطبا انہی سکولز اور یونیورسٹی کی الہیات فیکیلٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ترکی کی وزارت دیانت ائمہ وخطبا ء انہی یونیورسٹی کی الہیات فکیلٹی سے ڈگری لینے والوں کو ترجیح دیتی ہے ۔
ایک ریسرچ کے مطابق اس وقت ترکی میں 30،000 امام خطیب سکول قائم ہیں ۔جن میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں۔