علم تفسیر
- Admin
- Sep 16, 2021
تفسیر(ف س ر) سے نکلا ہے جس کے معنی ظاہر کرنا، کھول کر بیان کرنااور بے حجاب کرنا ہیں۔
تفسیر سے مراد قرآن مجید کے معانی کو واضح کرنا ہے۔ ابو حیان اندلسی ؒ علم تفسیر کی یہ تعریف بیان کرتے ہیں:
تفسیر ایسا علم ہے جس میں قرآن مجید کے الفاظ کے تلفظ ، ان کے مفہوم، ان کے احکام اور ان معانی سے بحث کی جاتی ہے جن کے وہ حامل ہوتے ہیں۔
(البحر المحیط ۱/۴)
امام بدر الدین زرکشیؒ (م: ۷۹۴ھ) نے علم تفسیر کی تعریف البرھان میں یوں بیان کی
ہے :
تفسیر ایسا علم ہے جس کی مدد سے اللہ کی کتاب جو نبی ﷺ پر نازل ہوئی کا فہم حاصل ہو،اس کے معانی سے واقفیت ہو، اس کے احکام نکالے جائیں اور حکمتیں بیان کی جائیں۔
الاتقان میں علامہ جلال الدین السیوطیؒ نے علم تفسیر کی حسب ذیل تعریف بیان کی ہے:
تفسیر ایسا علم ہے جس میں قرآنی آیات کے نزول ، اسباب النزول ، آیات مکی و مدنی، محکم و متشابہ، ناسخ و منسوخ، خاص و عام، مطلق و مقید، مجمل و مفصل ، حلال وحرام ، وعد و عید ، امر و نہی ، عبرت و امثال وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے۔
مختصر ًا تفسیر ایسا علم ہے جس کی مدد سے انسانی استطاعت کی حد تک رسول اکرم ﷺ پر نازل شدہ کلام الٰہی یعنی قرآن مجید کے معانی ، مطالب، احکام، مسائل کو واضح کرنے کی اور مراد الٰہی تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
قرآن مجید میں تفسیر کے لئے لفظ "تاویل"بھی استعمال ہوا ہے ۔ علماء سلف اس لفظ کا استعمال بکثرت کرتے۔مگر بعد کے علماء میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے؟
لغوی طور پر تاویل "اَوْلَ"سے نکلا ہے جس کے معنی ایسی حقیقت کی طرف رجوع کرنا، واپس لانا یالوٹانا کے ہیں جس کی طرف کلام اشارہ کررہا ہو۔جیسے:
{وما یعلم تأویلہ إلااللہ}۔
کسی کلام کی تشریح و توضیح کرنا تأویل ہے۔ تأویل الکلام سے مراد: تعبیر ، بیان، عمل، ثبوت ، انجام اور تحقیق وغیرہ ہیں۔ اسی معنی میں یہ آیت ہے:
{ہَلْ یَنْظُرُوْنَ إلاَّ تَأوِیلَہُ۔۔۔} (الأعراف:۵۳)
وہ اس کی حقیقت کا انتظار کررہے ہیں۔
اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ تَأْوِیْلَ الْکِتَابِ۔
اے اللہ! اسے کتاب کی تاویل یعنی مراد ،بیان یاوضاحت سکھادے۔
امام ابن عیینہ ؒ فرماتے ہیں:
اَلسُّنَّۃُ ہِیَ تَأوِیْلُ الأَمْرِ وَالنَّہْیِ أَیْ عَمَلَہُ وَالْقِیَامَ بِہِ فِی الْحَقِیْقَۃِ۔
سنت درحقیقت امر ونہی پر عمل کرنے اور اسے قائم کرنے کا نام ہے۔
علماء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ تاویل اور تفسیر دونوں ہم معنی ہیں۔جن میں ابوعبید، مجاہد اور ابن جریر الطبری بھی شامل ہیں۔ ابن جریر نے تو اپنی تفسیر کا نام بھی (جامِعُ البَیَانِ فِی تَأوِیْلِ آیِ الْقُرآنِ ) رکھا ہے۔ اس لئے وہ ہر آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں: اخْتَلَفَ أَہْلُ التَّأوِیْلِ یا اَلْقَوْلُ فِی تَأوِیْلِ الآیَۃِ۔ایک اور رائے ہے: کہ تاویل کا لفظ کئی لحاظ سے تفسیر سے بالکل ہی مختلف معنی رکھتا ہے۔ امام راغب اصفہانی ؒ کے نزدیک تفسیر سے مراد کلام الٰہی اور کلام انسانی دونوں کی تشریح کرنا ہے جبکہ تاویل صرف کتب الٰہیہ کی تشریح کا نام ہے۔امام منصور ؒ کہتے ہیں: تفسیر ، قرآن کی مراد کو قطعی طور پر متعین کرنے کانام ہے جبکہ تاویل الفاظ قرآن کے زیر احتمال معانی میں سے کسی ایک کو غیر یقینی طور پر معین کرنے کا نام ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ مفسرین ان دونوں الفاظ کا فرق نہ جان سکے۔وہ یہ سمجھتے رہے کہ تفسیر کا تعلق نص اور اس سے ماخوذ مفہوم سے ہے جبکہ تاویل نص کی گہرائی میں اترنے کا نام ہے۔یا پھر لفظ قرآن کے مختلف محتمل معانی کی وضاحت کو کہتے ہیں۔بعض نے تفسیر اسے کہا جو بذریعہ روایت ہو اور تاویل وہ جو بذریعہ درایت ہو۔
ان تمام آراء میں سب سے بہتر رائے امام ابو عبیدؒ کی ہے کیونکہ قرآن و سنت میں تفسیر کی جگہ تاویل کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً: ارشاد باری ہے: { ۔۔۔وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ۔۔۔ } (ال عمران:۷) اور دعائے رسول بھی ہم پڑھ آئے ہیں: اللہم عَلِّمْہُ تَأوِیْلَ الْکِتَابِ۔
فقہ وعقائد کے صحیح احکام تک رسائی کا نام بھی تاویل ہے تاکہ عام مسلمان کو ان احکام کی تمام حدود وقیود کا علم ہوسکے۔رسائی اگر برعکس ہو تو نتیجہ غلط ہوسکتا ہے جسے تاویل فاسد کہا جاتا ہے جیسے
{ وَاتَّخَذَ اللّہُ إِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلًا } (النساء:۱۲۵)میں خلیل سے مراد فقیر لینا اور اصلی معنی نامناسب کہنا، تاویل فاسد ہے۔
نوٹ: تاویل کا علم ایک بیش بہا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو تاویل الأحادیث کا علم عطا کیا تھا۔ابن عباس ؓ کے لئے حضور ﷺ نے دعا فرمائی کہ قرآن مجید کی تفسیر و تأویل کا علم انہیں عطا ہو۔ آپﷺ کی اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ ابن عباس ؓ کے تفسیری اقوال میں قرآنی الفاظ کی وضاحت و معانی کا تعین بہت سادہ اور عام فہم انداز میں کیا گیا ہے۔تفسیر میں جزمی طور پر مراد الٰہی تک نہیں پہنچا جاسکتا إلا یہ کہ صحیح روایت میں رسول اللہ ﷺ سے اس کی تفسیر منقول ہو یا صحابہ کرام سے جو نزول وحی کے وقت موجود تھے اور انہوں نے حوادث و واقعات کا مکمل احاطہ کیا ہو یا اشکال کے وقت انہوں نے آپ ﷺ کی طرف اس کے مفہوم کے لئے رجوع کیا ہو۔قرآن کا لفظ یا عبارت ایک سے زائد مفہوم کے اگر متحمل ہوں تو پھر ان کی تفسیر یا تاویل انتہائی احتیاط اورٹھوس دلائل کی محتاج ہے۔ بصورت دیگر خود ساختہ نظریہ و تخیل کی ترجمانی ہو گی نہ کہ خدمت قرآن۔اس میں مفسر کی اپنی اجتہادی کوشش جو لفظ قرآن کی بذریعہ لغت عرب صحیح معرفت ہو ، سیاق وسباق کے مطابق اس کا استعمال وہ کرے اور اسالیب عرب کی معرفت کے بعد معانی کا استنباط وغیرہ بھی۔امام زرکشی لکھتے ہیں:
وَکَانَ السَّبَبُ فِی اصْطِلاَحِ کَثِیْرٍ عَلَی التَّفْرِقَۃِ بَیْنَ التَّفْسِیْرِ وَالتَّأْوِیْلِ، اَلتَّمْیِیْزُ بَیْنَ الْمَنْقُوْلِ وَالْمُسْتَنْبَطِ، لِیُحِیْلَ عَلَی الاِعْتِمَادِ فِی الْمَنْقُولِ، وَعَلَی النَّظَرِ فِی الْمُسْتَنْبَطِ۔(البرہان ۲؍۱۷۲) بہت سے علماء کے ہاں تفسیر وتاویل کی اصطلاح میں اختلاف کا سبب منقول ومستنبظ کے درمیان امتیاز کرنا تھا تاکہ منقول پر اعتماد ہواور مستنبط پر غور ۔
قرآن کریم کے نزول کے ساتھ ہی علم تفسیر کا آغاز ہوچکا تھا ۔قرآن نے اپنی تفسیر بعض مقامات پر خودکی نیز نبی اکرم ﷺ بھی قرآن کے اولین مفسر وشارح تھے ۔ زبانی تفسیر کے علاوہ آپ ﷺ نے اپنے عمل میں بھی ان آیات کو سمویا۔آپ ﷺ کے اخلاق وسیرت بھی تفسیر قرآن تھے۔ آپ ﷺ نے صرف ان حصوں کی تفسیر فرمائی جنہیں سمجھنا صحابہ ؓ کے لئے مشکل تھا۔ یہ مشکل اس وقت پیش آتی جہاں آیات کی فصاحت وبلاغت صحابہ کرام ؓ کی علمی حد سے زائد ہوتی اور ناقابل فہم بھی۔ مثلاً: مجمل، مشکل، متشابہ آیات اور بعض اصطلاحات وغیرہ۔ جن کی تفسیر کے لئے وہ نبی اکرم ﷺ کی طرف رجوع کرتے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
لَمْ یَکُنِ النَّبِیفُ ﷺ یُفَسِّرُ شَیْئًا مِنَ الْقُرْآنِ إِلا آیَاتٌ تُعَدُّ، عَلَّمَہُنَّ إِیَّاہُ جِبْرِیْلُ۔
آپ ﷺ نے قرآن کریم کی چند گنی چنی آیات کی تشریح کی ہے جنہیں جبریل امین نے آپ ﷺ کو سکھایا تھا۔(تفسیر القرطبی ۱/۳۱)
دراصل مسلمانوں سے مطلوب یہ تھا کہ وہ رسول اکرم ﷺ کی اتباع و اطاعت میں کوئی کمی یاکوتاہی نہ کریں تاکہ قرآن کی صحیح عملی تفسیر کا خود بخودانہیں ادراک ہوتا جائے۔صحابہ رسول اس سے بھی آگاہ تھے کہ آپ ﷺ کے اخلاق وسیرت سبھی قرآن مجید کی تعلیمات کا عکس ہیں۔ اسی لئے امام سیوطیؒ فرماتے ہیں:
اَلَّذِیْ صَحَّ مِنْ ذَلِکَ قَلِیْلٌ جِدًّا بَلْ أَصْلُ الْمَرْفُوْعِ مِنْہُ فِی غَایَۃِ الْقِلَّۃِ۔ آپ ﷺ سے تفسیر بہت کم ہی ثابت ہے بلکہ مرفوع تفسیر تو نہ ہونے کے برابر ہے۔(الاتقان: ۲/۱۷۹)
نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد بے شمار عرب وعجم حلقہ اسلام میں داخل ہوئے ۔جنکی اکثریت عربی زبان سے ناواقف تھی۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ اپنی مقدس کتاب کو جانیں اور اس کے علوم جیسے: اسباب نزول ، مکی و مدنی وغیرہ سے واقف ہوں۔چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ قرآن کے ان حصوں کی تفسیر بیان کردی جائے جنہیں نبی اکرم ﷺنے بیان نہیں کیا۔ صحابہ ؓ کا یہی منہج رہا کہ وہ سب سے پہلے تفسیر کے لئے اقوال نبی اکرم ﷺ کو دیکھتے ورنہ وہ خود اس کے مطالب بیان کرتے۔
دور تابعین کرام میں تفسیر کی ضرورت اور بڑھ گئی۔اس نسل نے بالمشافہ صحابہ کرام ؓ سے تفسیر کا علم سیکھا۔ ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ آیات کی تفسیر کرتے وقت سب سے پہلے احادیث نبویہ کو دیکھتے۔ پھر اقوال صحابہ ؓ کی طرف رجوع کرتے اور آخری درجے پر اپنے اجتہاد سے کام لیتے۔ اس دور میں تفسیر کے پہلو بہ پہلو بہت سی موقوف و اسرائیلی روایات بھی شامل ہو گئیں ۔ ایسی بحثیں شروع ہوگئیں جنہیں صحابہ کرام ؓ نے غیر ضروری ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔
تبع تابعین کا دور آیا تو اسرائیلیات کی بھرمار ہوگئی۔فرقہ بندی نے جنم لیا جن میں بالخصوص معتزلی، جہمی اور قدری افکار ونظریات نے تفسیری اختلافات کا دروازہ اور کشادہ کردیا، تفسیر میں جعلی روایات کی کثرت ہوئی مگرصحیح نقل وروایت کا سلسلہ بھی اپنی آن بان کے ساتھ جاری رہا ۔عدم احتیاط سے جعلی روایات کی دیومالائی کہانیاں اور داستانیں جزو تفسیربن گئیں ۔ انہی روایات کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کو یہ فرمانا پڑا:
ثَلاَثَۃٌ لَیْسَ لَہَا أَصْلٌ: اَلتَّفْسِیْرُ، وَالْمَلاَحِمُ وَالْمَغَازِیْ۔
تین علوم ایسے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں۔ تفسیر، جنگیں اور غزوات۔ان تفاسیر میں کلبی اور مقاتل بن سلیمان کی تفاسیر سر فہرست ہیں ۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں:
فِیْ تَفْسِیْرِ الْکَلْبِیِّ مِنْ أَوَّلِہِ إِلٰی آخِرِہِ کِذْبٌ۔
تفسیر کلبی شروع تا آخر جھوٹ کا پلندہ ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا کہنا ہے:
إِنَّ النَّقْلَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیْلَ دَسِیْسَۃٌ دَخَلَتْ فِی دِیْنِنَا۔
اسرائیلی روایات ہمارے دین میں درآئی سازش ہے۔(الفوز الکبیر:۵)
الحمد للہ علمائے اسلاف کی محنت اور تحقیق سے تفسیری روایات میں ضعیف وموضوع حصہ غالب نہ ہوسکا۔ جس کا تدارک عہد صحابہ میں روایت کے ذریعے ہوا اور احتیاط یہ برتی گئی کہ ہر روایت کی تفتیش ہواور ہر ایک کی تفسیر کو میزان صحت قرار نہ دیا جائے۔
اس لئے قرآن کی صحیح تفسیر کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے۔اس کی مزید وجوہات یہ ہیں:
قرآن میں فصاحت و بلاغت، حکمت او راوصاف کلام کا ایک ایک چمن کھلا ہوا ہے۔ اس کی جامعیت ، ہمہ گیری اور وسعت کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔ اس لئے اس کی عربی ذوق اور عربیت کے مطابق تشریح و تفسیر نہایت ضروری ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ہر فن کے ماہرین کی یہ عادت ہوا کرتی ہے کہ وہ کسی بھی علم مثلاً طب یا حساب کی کتاب کو پڑھتے ہیں اور اس کی وضاحت وشرح بھی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کے اس کلام کے ساتھ ایسا معاملہ کیوں ہو کہ وہ بغیر تفسیر(یا بغیر ماہرین) کے سمجھا جائے جب کہ یہ مقدس کتاب انسان کو تباہی سے بچاتی، اسے اخروی نجات دلاتی اور دنیاوی زندگی میں اسے سعادت مند بناتی ہے۔
آزاد خیال لوگوں نے اور غیر مسلم متعصبین نے قرآن کریم کے بعض الفاظ کے معانی کواپنی لغات کے ذریعے تلاش کرکے کئی لحاظ سے قرآن کریم کو محرف کرنے اور اہل اسلام کو ملزم بنانے کی مذموم کوشش کی ہے۔مثلاً:
{وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللّہِ} (الانفال:۶۰)
میں لفظ ترہبون کو نکال کر قرآن کریم اور اہل اسلام کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں جہاں عالمی سطح پر کی جارہی ہیں وہاں اپنی اپنی پارلیمنٹ میں بھی ایسی قرار دادیں پاس کرکے مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔مزید برآں مطبوعہ تراجم میں بیشتر تراجم بھی عربیت سے نابلد یا الفاظ قرآنی کے عمیق معانی ومطالب سے محروم ہیں۔
قرآن میں کچھ باتیں مجمل بھی کی گئی ہیں۔ جن کی وضاحت کے لئے تفسیربہت ضروری ہے تاکہ عوام پر اس کے عقدے کھل سکیں۔ اس کے علاوہ قوانین و احکام کی تفصیلی صورت، حدود و قیود، ان پر رضا مندی واطمینان، او ران کا نفاذ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کی صحیح تفسیر بیان کی جائے۔
عصر حاضر میں جب عجمی مسلمان زیادہ تعداد میں ہیں اور عربی زبان و ادب سے واقفیت کم ہو چکی ہے۔ تو اس دور میں تفسیر کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے تاکہ کتاب الٰہی کے احکامات اور الفاظ کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے عجمی مسلمانوں کی رہنمائی کی جا سکے۔
مذاہب باطلہ اور منحرفین نے تحریف اور تضلیل سے احادیث گھڑ کے تفسیر میں شامل کردی ہیں اوران کے عجیب وغریب مطالب بیان کرکے رسول اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کو متہم کرنے کی کوشش کی ہے۔اس لئے ایسی تفاسیر سے آگاہ ہونا اور صحیح منہج کو سمجھنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
قرآن پاک میں بغیر کسی علم کے بات کرنے میں سخت وعید کے باوجود بھی اگر کوئی جرات کرتا ہے تو علماء تفسیر نے مفسر کے لئے کچھ شرطیں عائد کی ہیں تاکہ جو تفسیر کرنا چاہے وہ اس وعید سے نکل آئے اور اہل تفسیر میں اس کا شمار ہو۔تعجب اس بات پر نہیں ہوتا کہ کوئی مفسر بن جائے بلکہ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے کلام کے بارے میں ہر کوئی اپنی عقل بگھارنے لگے۔حیرت ہوتی ہے کہ اللہ کے کلام میں کس طرح زبان چل جاتی ہے۔کون ہے آج جو کسی بھی آیت کی تفسیر کے لئے اپنی زبان تو کھولتا ہے مگر یہی آیت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر پیش کی جاتی تو وہ یہ فرماتے:
أَیُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِی، وأَیُّ سَمَائٍ تُظِلُّنِی، إِذا قُلتُ فِی القُرآنِ بِرأیِی أَو بِما لأَأَعْلَمُ۔
کون سی زمین مجھے برداشت کرے گی اور کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا اگر میں قرآن کریم کے بارے میں اپنی رائے دوں اور وہ کہوں جو میں جانتا ہی نہیں۔
قرآن پاک کی تلاوت کرنا سب کا حق ہے مگر تفسیر قرآن کرنا ہر ایک کا حق نہیں۔جیسے میڈیکل کی کتب ہر کوئی پڑھ سکتا ہے مگر ہر کوئی پڑھنے کے بعد مریضوں کا علاج معالجہ شروع نہیں کردیتا۔یہی وجہ ہے کہ ہم ایسی حکیموں اور ڈاکٹروں کے خلاف شور مچاتے ہیں کہ حکومت ان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے جو لوگوں کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔مگر ایسی جری نام نہاد مفسرین کے بارے میں ہم خاموش رہتے ہیں جب کہ ان میں مفسر کی ایک شرط تک نہیں پائی جاتی۔
موجودہ دور میں تعلیم کی غرض سے بعض جامعات میں تفسیر کی تقسیم دو طرح سے کی گئی ہے۔
جدید تقسیم کے مطابق تفسیر کی تین اقسام ہیں۔
اس میں قرآنی آیات کو گرائمر کے ضابطوں کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے اور صرفی ونحوی مباحث سے قرآنی آیات والفاظ کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔اسے حقیقتا تفسیر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ تفسیر کی لغوی اور اصطلاحی دونوں تعریفات اس پر منطبق نہیں ہوتیں۔
اس قسم میں ایک ہی موضوع سے متعلق قرآنی آیات کو جمع کر کے ان کی تفسیر کی جاتی ہے۔جیسے احکام کی آیات کو اکٹھا کرکے ان کی تفسیر کرنا اسی طرح آیات ایمانیات، آیات توحید، آیات اخلاق، آیات معاشرت، آیات معیشت وغیرہ۔
اس قسم میں قرآن مجید کی بعض مخصوص آیات کو لے کر مختلف مفسرین کی لکھی ہوئی تفسیری آراء کا باہمی موازنہ کیا جاتاہے جن میں بنیادی طور پر ان آیات کے بارے میں ہر مفسر کے عقیدہ، مذہبی میلان اور اس کے مؤقف ودلائل کو سمجھا جاتاہے ۔
استفادہ از: https://forum.mohaddis.com