سورۃ البقرہ کا مختصر تعارف
- Admin
- Jun 07, 2023
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ بقرہ ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔) سواۓ آیت نمبر 281/ واتقوایوماترجعون کے کہ یہ حجۃ الوداع کے موقع پر بمقام مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔( تفسیر خزائن العرفان ، سورۃالبقرۃ ،تفسیرخازن، تفسیرسورۃ البقرۃ، ۱ / ۱۹)۔
سورۃالبقرۃ میں رکوع، آیات، کلمات اور حروف کی تعداد
اس سورت میں 40 رکوع، 286آیتیں ، 6121 کلمات اور 25500 حروف ہیں۔
(تفسیر صراط الجنان، جلد اول، ص ۵۶، تفسیر خزائن العرفان، سورۃالبقرۃ، تفسیر خازن، سورۃالبقرۃ،۱/۱۹-۲۰)۔
پہلے اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ شروع میں قرآن کریم کی سورتوں کے نام نہیں لکھے جاتے تھے یہ طریقہ حجاج نے ایجاد کیا۔
عربی میں گائے کو ’’ بَقَرَۃٌ ‘‘کہتے ہیں اور اس سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے ہیں۔
(تفسیر خزائن العرفان، سورۃ البقرۃ، تفسیرصراط الجنان سورۃ البقرۃ،۱/۵۶)۔
احادیث میں اس سورت کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے چند فضائل درج ذیل ہیں:
۔(1) …حضرت ابو اُمامہ باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قرآن پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’ سورۂ اٰل عمران ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴)۔
۔(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔
(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔الخ، ص۳۹۳،الحدیث: ۲۱۲(۷۸۰)۔
۔(3) …حضرت ابو مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(ناگہانی مصائب سے) کافی ہوں گی۔
(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ، ۳ / ۴۰۵، الحدیث: ۵۰۰۹)۔
۔(4) …حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ ‘‘ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔
(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۰۲، الحدیث: ۲۸۸۷)۔
۔(5)…حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دن کے وقت اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔
(شعب الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۵۳، الحدیث: ۲۳۷۸)۔
۔(6) حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص سوتے وقت سورہ بقرہ کی 10 آیتیں پڑھے گا قرآن شریف کو کبھی نہ بھولے گا، وہ آیتیں یہ ہیں،4 آیتیں اول کی اور آیت الکرسی اور 2 اس کے بعد کی اور 3 آخری سورت کی۔ (بہیقی شریف)۔
۔(7) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ میت کو دفن کر کے قبر کے سرہانے سورہ بقرہ کے اول کی آیتیں اور پاؤں کی طرف آخری آیتیں پڑھو۔( طبرانی شریف، بہیقی شریف)۔
۔(8)”حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن قرآن مجید اور اس پر عمل کرنے والوں کو لایا جائے گا۔ ان کے آگے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران ہوں گی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سورتوں کی تین مثالیں بیان فرمائیں جن کومیں آج تک نہیں بھولا، وہ ایسی ہیں جیسے دو بادل ہوں یا دو سیاہ سائبان ہوں جن کے درمیان روشنی ہو یا صف باندھے ہوئے دوپرندوں کی قطاریں ہوں وہ اپنے پڑھنے والوں کی وکالت کریں گی_
( صحیح مسلم شریف، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل قراءۃ القرآن وسورۃ البقرۃ،١/٥٥٤، الرقم:٨٠٥، )۔
حضرت امام ابن عربی رحمتہ اللہ الباری فرماتے ہیں: کہ اس سورۃ البقرۃ میں ہزار أوامر، ہزار نواہی، ہزارہا احکام اور ہزارہا خبریں ہیں۔اس کے اخذ میں برکت اور ترک میں حسرت ہے۔
(تفسیر جمل، سورۃ البقرۃ، تفسیر خزائن العرفان، سورۃ البقرۃ)۔
یہ قرآن پاک کی سب سے بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘ میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
۔(1) … قرآن پاک کی صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
۔(2) … قرآن پاک سے حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
۔(3) …قرآن پاک میں شک کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔
۔(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔
۔(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔
۔(6) …اس سورت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔
۔(7) … عبادات اور معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔
۔(8) …تابوت سکینہ ، طالوت اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔
۔(9) …مردوں کو زندہ کرنے کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔
۔(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(11) …اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔
۔’’ سورۂ بقرہ‘‘ کی اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(سورہ فاتحہ: ۵) اور ’’سورۂ بقرہ ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ترجمہ کنزالعرفان: اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے۔
{ بِسْمِ اللّٰهِ : اللہ کے نام سے شروع ۔[ علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔
(کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ : جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔[امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟۔
اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔
(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)۔
علماے کرام نے ’’ بسم اللہ ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں
۔(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل ‘‘ کی اس آیت مبارکہ میں آئی ہے ۔اِنَّهٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَ اِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ (۳۰)۔
بسم اللہ شریف اس آیت کا ایک حصہ ہے۔
۔(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے۔
۔(مسٔلہ) امام جہری نمازوں میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
۔(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرحمٰن الرحیم ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ قرآن کریم کی ایک آیت رہ نہ جائے۔
۔(4)… مسٔلہ۔۔ تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ‘‘ پڑھنا سنت ہے،(تفسیر خازن،الفاتحہ )”..مسٔلہ ۔۔ لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔(فتاویٰ شامی) مسٔلہ۔۔ “امام ومنفرد کےلئے سبحان اللہ سے فارغ ہو کر آہستہ اعوذ الخ پڑھنا سنت ہے۔(فتاویٰ شامی)۔
۔(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
۔(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ پڑھنے کی حاجت نہیں۔
الٓمّٓۚ(۱) ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ(۲)۔
الم۔ وہ بلند رتبہ کتاب جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ۔اس میں ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔
(١){ الٓمّٓ :}قرآن پاک کی 29سورتوں کے شروع میں اس طرح کے حروف ہیں ،انہیں ’’حروفِ مُقَطَّعَات‘‘کہتے ہیں
وہ انتیس مقام یہ ہیں۔۔
ان کے بارے میں سب سے قوی قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے راز ہیں اور متشابہات میں سے ہیں ، ان کی مراد اللہ تعالیٰ جانتاہے اور ہم ان کے حق ہونے پر ایمان لاتے ہیں۔
(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۲۰، الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثالث والاربعون، ۲ / ۳۰۸، ملتقطاً)
یہاں یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی حروف مقطعات کا علم عطا فرمایا ہے ،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :قاضی بیضاوی(رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) ’’اَنْوَارُالتَّنْزِیلْ ‘‘ میں سورتوں کے ابتدائیہ یعنی حروف مقطعات کے بارے میں فرماتے ہیں : ایک قول یہ ہے کہ یہ ایک راز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے۔
تقریبا ًایسی ہی روایات خلفاء اربعہ اور دیگر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بھی(منقول) ہیں اور ممکن ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے یہ مراد لیا ہو کہ یہ حروف اللہ تعالٰیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے درمیان راز و نیاز ہیں اور یہ ایسے اسرار و رموز ہیں جنہیں دوسرے کو سمجھانامقصود نہیں۔اگر یہ راز حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو معلوم نہ ہوں تو پھر غیر مفید کلام سے خطاب کرنا لازم آئے گا اور یہ بعید ہے۔
(تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۹۳)۔
حضرت امام خفاجی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(اَنْوَارُالتَّنْزِیلْ کے)بعض نسخوں میں ’’اِسْتَأْثَرَہُ اللہُ بِعِلْمِہٖ‘‘ ہے اور(اِسْتَأْثَرَہُ کی) ضمیر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے ہے اور ’’با‘‘ مقصور پر داخل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اپنے علم سے (خاص کرکے)معزز و مکرم فرمایایعنی مقطعات کاعلم صرف اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حاصل ہے۔اس معنی کو اکثر سلف اور محققین نے پسند فرمایا ہے۔
(عنایۃ القاضی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۱۷۸، مختصراً، انباء الحی، مطلب المتشابہات معلومۃ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، ص۵۲-۵۳)۔
حضرت علامہ سید محمود آلوسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ فرماتے ہیں ’’ غالب گمان یہ ہے کہ حروف مقطعات مخفی علم اور سربستہ راز ہیں جن کے ادراک سے علماء عاجز ہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا، اور خیالات اس تک پہنچنے سے قاصر ہیں اور اسی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:ہر کتاب کے راز ہوتے ہیں اور قرآن مجید کے راز سورتوں کی ابتداء میں آنے والے حروف ہیں۔
اورامام شعبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ حروف اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں تو ان کاکھوج نہ لگاؤ کیونکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد ان کی معرفت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علوم کے وارث اولیاء کرام کو ہے،انہیں اسی بارگاہ سے (ان اسرار کی) معرفت حاصل ہوتی ہے اور کبھی یہ حروف خود انہیں اپنا معنی بتا دیتے ہیں جیسے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ہاتھوں میں کنکریوں نے تسبیح کے ذریعے کلام کیا اور گوہ اور ہرن حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہم کلام ہوئے۔
جیسا کہ ہمارے آباؤ اجداد یعنی اہلِ بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے یہ بات (حروف ِ مقطعات کا علم ہونا) صحت سے ثابت ہے بلکہ جب کوئی بندہ قرب ِ نوافل کے درخت کا پھل چنتا ہے تو وہ ان حروف کو اور اس کے علاوہ کے علم کو اللہ تعالیٰ کے علم کے ذریعے جان لیتا ہے۔
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر ان کا کوئی مفہوم نہ ہو تو ان کے ساتھ خطاب مہمل خطاب کی طرح ہو گا۔‘‘یہ بات ہی مہمل ہے اگرچہ اسے کہنے والاکوئی بھی ہو کیونکہ اگر تمام لوگوں کو سمجھانا مقصود ہو تو یہ ہم تسلیم نہیں کرتے اور اگر صرف ان حروف کے مخاطب کو سمجھانا مقصود ہو اور وہ یہاں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں تو اس میں کوئی مومن شک نہیں کر سکتا (کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کا معنیٰ جانتے ہیں )۔
اور اگر اس سے بعض لوگوں کو سمجھانا مقصود ہے تو اربابِ ذوق کو ان کی معرفت حاصل ہے اور وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ امت ِمحمدیہ میں کثیر ہیں اور ہم جیسوں کا ان کی مراد نہ جاننا نقصان دہ نہیں کیونکہ ہم تو ان بہت سے افعال کی حکمت بھی نہیں جانتے جن کے ہم مکلف ہیں جیسے جمرات کی رمی کرنا صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا،رمل اور اضطباع وغیرہ اور ان جیسے احکام میں اطاعت کرنا سرِ تسلیم خم کرنے کی انتہا پر دلالت کرتا ہے۔
(روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۱۳۶-۱۳۷ ، تفسیر صراط الجنان سورۃ البقرۃ)۔
{لَا رَیْبَ : کوئی شک نہیں۔[آیت کے اس حصے میں قرآن مجید کا ایک وصف بیان کیاگیا کہ یہ ایسی بلند شان اور عظمت و شرف والی کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ شک اس چیز میں ہوتا ہے جس کی حقانیت پر کوئی دلیل نہ ہو جبکہ قرآن پاک اپنی حقانیت کی ایسی واضح اور مضبوط دلیلیں رکھتا ہے جو ہر صاحب ِ انصاف اورعقلمند انسان کو اس بات کا یقین کرنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ یہ کتاب حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے ۔
تو جیسے کسی اندھے کے انکار سے سورج کا وجود مشکوک نہیں ہوتا ایسے ہی کسی بے عقل مخالف کے شک اور انکار کرنے سے یہ کتاب مشکوک نہیں ہوسکتی۔ قرآن مقدس نے اس آیت مبارکہ میں یہ بتایا کہ اگر قرآن کریم کی حقانیت کے دلائل و براہین پر کوئی ٹھنڈےدل سے غور کرے،تواس پر عیاں ہو گا کہ اس کتاب میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کفار ومشرکین مکہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا انکار کر تے تھے اور یہ کہتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے، چنانچہ قرآن کریم نے پہلا چیلنج سورہ بنی اسرائیل اس طرح دیا
۔(ترجمہ کنزالعرفان) تم فرماؤ: اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔
{قُلْ: تم فرماؤ۔[ یعنی اگر تمام جن و اِنس اِس پر متفق ہوجائیں کہ فصاحت و بلاغت ، حسن ِترتیب ، علومِ غَیبِیہ اور معارفِ الٰہیہ وغیرہا میں سے کسی کمال میں قرآن کے برابر کوئی چیز لے آئیں تو وہ ایسا نہ کرسکیں گے۔ مشرکین نے کہا تھا کہ ہم چاہیں تو اس قرآن کی مثل بنالیں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اُن کی تکذیب کی کہ خالق کے کلام کے مثل مخلوق کا کلام ہوہی نہیں سکتا۔اگر وہ سب باہم مل کر کوشش کریں جب بھی ممکن نہیں کہ اِس کلام کے مثل لاسکیں چنانچہ ایسا ہی ہوا، تمام کفار عاجز ہوئے اور انہیں رسوائی اُٹھانا پڑی اور وہ ایک سطر بھی قرآن کریم کے مقابل بنا کر پیش نہ کرسکے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۱۹۱، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۶۳۵، ملتقطاً)۔
۔(ترجمہ کنزالعرفان) کیا یہ کہتے ہیں : یہ قرآن نبی نے خود ہی بنالیا ہے۔ تم فرماؤ: (اگر یہ بات ہے ) تو تم (بھی) ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور اگر تم سچے ہو تو اللہ کے سوا جو مل سکیں سب کو بلالو ۔
تفسیر
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ : کیا یہ کہتے ہیں۔} یعنی کیا کفارِمکہ قرآنِ کریم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ قرآن خود ہی بنالیا ہے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ ’’اگر یہ بات ہے تو تم بھی ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ کیونکہ انسان اگر ایسا کلام بناسکتا ہے تو اس کے مثل بنانا تمہاری طاقت سے باہر نہ ہوگا، تم بھی عربی ہو، فصیح و بلیغ ہو، کوشش کرو ۔ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ یہ کلام انسان کا بنایا ہوا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جو مل سکیں سب کو اپنی مدد کے لئے بلالو۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۳۴۳-۳۴۴)۔
قرآنِ مجید نے اپنی مثل کلام بنا کر پیش کرنے کا چیلنج 4 طرح سے دیا ہے۔
۔(1)…پورے قرآن کے مثل لانے کا چیلنج دیا چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں ہے
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔
۔(2)…د س سورتوں کی مثل لانے کا چیلنج دیا ، جیسا کہ زیر تفسیر آیت میں ہے۔
۔(3)… ایک سورت کی مثل لانے کا چیلنج دیا ،چنانچہ سورہ ٔبقرہ میں ہے
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پرنازل کی ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنالاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے سب مددگاروں کو بلالو اگر تم سچے ہو۔
{ وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ : اور اگر تمہیں کچھ شک ہو ۔[ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت اور قرآن کریم کے اللہ تعالیٰ کی بے مثل کتاب ہونے کی وہ قاہر دلیل بیان فرمائی جارہی ہے جو طالب ِصادق کو اطمینان بخشے اور منکروں کو عاجز کردے۔اللہ تعالیٰ کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل قرآن ہے لہٰذا اس رکوع میں ترتیب سے ان سب کو بیان کیا گیا ہے۔
{عَلٰى عَبْدِنَا : اپنے خاص بندے پر ۔ [اس آیت میں خاص بندے سے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مراد ہیں۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۳۵) یہاں اس اندازِ تعبیر میں نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ محبوبیت کی طرف بھی اشارہ ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں
لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بندہ خَلق کا آقا کہوں تجھے
{فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ : تو تم اس جیسی ایک سورت بنالاؤ ۔}آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت میں قرآن کے بے مثل ہونے پر دو ٹوک الفاظ میں ایک کھلی دلیل دی جارہی ہے کہ اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز کرنے والوں کو چیلنج ہےکہ اگر تم قرآن کو اللہ تعالیٰ کی کتاب نہیں بلکہ کسی انسان کی تصنیف سمجھتے ہو تو چونکہ تم بھی انسان ہو لہٰذا اس جیسی ایک سورت بنا کر لے آؤ جو فصاحت و بلاغت ،حسنِ ترتیب ، غیب کی خبریں دینے اور دیگر امور میں قرآن پاک کی مثل ہواور اگرایسی کوئی سورت بلکہ آیت تک نہ بنا سکو تو سمجھ لو کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کا انکار کرنے والوں کا انجام دوزخ ہے جو بطورِ خاص کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔
نوٹ: یہ چیلنج قیامت تک تمام انسانوں کیلئے ہے، آج بھی قرآن کو محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تصنیف کہنے والے کفار تو بہت ہیں مگر قرآن کی مثل ایک آیت بنانے والا آج تک کوئی سامنے نہیں آیا اور جس نے اس کا دعویٰ کیا ، اس کا پول خود ہی چند دنوں میں کھل گیا۔
اعجاز ِقرآن کی وجوہات
قرآن مجید وہ بے مثل کتا ب ہے کہ لوگ اپنے تمام تر کمالات کے باوجود قرآن پاک جیساکلام بنانے سے عاجز ہیں اورجن و انس مل کر بھی اس کی آیات جیسی ایک آیت بھی نہیں بنا سکتے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور مخلوق میں کسی کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی مثل کلام بنا سکے اور یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج تک کوئی بھی قرآن مجید کے دئیے ہوئے چیلنج کا جواب نہیں دے سکا اور نہ ہی قیامت تک کوئی دے سکے گا۔قرآن پاک کے بے مثل ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جنہیں علماء و مفسرین نے اپنی کتابوں میں بہت شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، ہم یہاں پر ان میں سے صرف تین وجوہات بیان کرتے ہیں۔ تفصیل کیلئے بڑی تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں۔
۔(1)…فصاحت و بلاغت
عرب کے لوگ فصاحت و بلاغت کے میدان کے شہسوار تھے اور ان کی صفوں میں بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جو کہ بلاغت کے فن میں اعلیٰ ترین منصب رکھنے والے،عمدہ الفاظ بولنے والے،چھوٹے اور بڑے جملوں کو بڑی فصاحت سے تیار کرنے والے تھے اور تھوڑے کلام میں بہترین تصرف کرلیتے تھے، اپنی مراد کو بڑے عمدہ انداز میں بیان کرتے، کلام میں فصاحت و بلاغت کے تمام فنون کی رعایت کرتے اور ایسے ماہر تھے کہ فصاحت و بلاغت کے جس دروازے سے چاہتے داخل ہو جاتے تھے،الغرض دنیا میں ہر طرف ان کی فصاحت و بلاغت کا ڈنکا بجتا تھا اور لوگ فصاحت و بلاغت میں ان کا مقابلہ کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے۔
ان اہل عرب کو فصاحت و بلاغت کے میدا ن میں اگر کسی نے عاجز کیا ہے تو وہ کلام قرآن مجید ہے ،اس مقدس کتاب کی فصاحت و بلاغت نے اہل عرب کی عقلوں کو حیران کردیا اور اپنی مثل لانے سے عاجز کردیا۔
قرآن مجید کے بے مثل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اسے پڑھنے اور سننے والا کبھی سیر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے اکتاتا ہے بلکہ وہ اس کی جتنی زیادہ تلاوت کرتا ہے اتنی ہی زیادہ شیرینی اور لذت پاتا ہے اور بار بار اس کی تلاوت کرنے سے اس کی محبت دل میں راسخ ہوتی جاتی ہے اور ا س کے علاوہ کوئی اور کلام اگرچہ وہ کتنی ہی خوبی والا اورکتنا ہی فصیح و بلیغ کیوں نہ ہو اسے بار بار پڑھنے سے دل اکتا جاتا ہے اور جب اسے دوبارہ پڑھا جائے تو طبیعت بیزار ہو جاتی ہے ۔
قرآن مجید کی اس شان کے بارے میں حضرت حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قرآن وہ ہے جس کی برکت سے خواہشات بگڑتی نہیں اور جس سے دوسری زبانیں مشتبہ نہیں ہوتی، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے،یہ بار بار دہرائے جانے سے پرانا نہیں ہوتا اور ا س کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل القرآن، ۴ / ۴۱۴-۴۱۵، الحدیث: ۲۹۱۵)۔
نیزقرآن مجید کی آیات میں رعب ، قوت اور جلال ہے کہ جب کوئی ان کی تلاوت کرتا ہے یا انہیں کسی سے سنتا ہے تو اس کے دل پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے حتّٰی کہ جسے قرآن پاک کی آیات کے معانی سمجھ میں نہ آ رہے ہوں اور وہ آیات کی تفسیر بھی نہ جانتا ہو، اس پر بھی رقت طاری ہو جاتی ہے، جبکہ قرآن مجید کے علاوہ اور کسی کتاب میں یہ وصف نہیں پایا جاتا اگرچہ وہ کیسے ہی انداز میں کیوں نہ لکھی گئی ہو۔
قرآن پاک میں مستقبل کے متعلق جو خبریں دی گئیں وہ تمام کی تمام پوری ہوئیں مثلاً زمانہ نبوی میں رومیوں کے ایرانیوں پر غالب آنے کی خبر دی گئی اور وہ سوفیصد پوری ہوئی۔
اور سورۂ یونس میں ہے
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اسے خود ہی بنالیا ہے ؟ تم فرماؤ: تو تم (بھی) اس جیسی کوئی ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا جو تمہیں مل سکیں سب کو بلا لاؤاگر تم سچے ہو۔
اَمْ یَقُوْلُوْنَ : کیا وہ یہ کہتے ہیں۔ یہاں کافروں کی اسی بات کا جواب دیا گیا ہے کہ کیا کفار یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قرآن خود ہی بنالیا ہے اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام نہیں ؟ ا ے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان سے فرما دو کہ اگر تمہارا یہی خیال ہے تو تم بھی عربی ہو، فصاحت و بلاغت کے دعویدار ہو، دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے کلام کے مقابل کلام بنانے کو تم ناممکن سمجھتے ہو، لہٰذا اگر تمہارے گمان میں یہ انسانی کلام ہے تو تم بھی اس جیسی کوئی ایک سورت لے آؤ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جو تمہیں مل سکیں سب کو بلا لاؤ اور ان سے مدد یں لو اور سب مل کر قرآن جیسی ایک سورت تو بنا کر دکھاؤ۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۳۱۶، ملخصاً)۔
قرآنِ مجید کا یہ چیلنج چودہ سوسال سے زائد عرصے سے چلا آرہا ہے لیکن آج تک کوئی کافر اس کا جواب نہیں دے سکا اور اگر کسی نے جواب دینے کی کوشش بھی کی ہے تو قرآنِ کریم کے مقابلے میں اس کی حیثیت ناچیز ذرے سے بھی کم ثابت ہوئی۔
۔(4)… آخری چیلنج یہ دیا کہ اس جیسی ایک بات ہی بنا لائیں ،چنانچہ سورۂ طور میں ہے
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس نبی نے یہ قرآن خود ہی بنالیا ہے بلکہ وہ ایمان نہیں لاتے۔اگریہ سچے ہیں تو اس جیسی ایک بات تو لے آئیں۔
قرآن مجید فرقان حمید نے اپنے تمام معاندین و منکرین کو چیلنج کیا کہ اگر تمہیں قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے میں شک ہے، تمہیں اپنی فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز ہے، تو تم سب مل کر اس جیسا کلام بنا کر لے آؤ اور تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ قرآن مجید کے اس چیلنج کو قبول کیا گیا ہو، چنانچہ قرآن مقدس نے فیصلہ کن انداز میں اعلان کیا کہ تم یہ کام ہرگز نہ کر سکو گے اور نہ وہ کر سکے ، اور ان شاءاللہ العظیم قیامت کی صبح تک کرسکے گا۔۔ میرے امام اعلیٰ حضرت مجدد اعظم محدثِ بریلوی فرماتے ہیں
تیرے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحاں عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں۔
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
اَللّٰھُمَّ ثَـبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلَی الإِیْمَانِ وَتَوَفَّـنَا عَلَی الإِسْلَامِ وَارْزُقْنَا شَفَاعَۃَ خَیْرِ الْاَنَامِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلامُ، وَأَدْخِلْنَا بجاھِہِ عِنْدَکَ دَارَ السَّلَامِ اٰمِیْن یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ!۔۔ وَالْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْـعٰـلَمِیْ